Josh Maleehaabadi ---جوش ملیح آبادی






جوش ملیح آبادی
 
اے ہمنشیں! وہ جوشِ مئے ارغواں ہے آج
صہبا کی ایک بوند میں کون و مکاں ہے آج

ہر مغبچہ کہ رقص کناں ہے بہ طرحِ نو
چشم و چراغِ سلسلۂ قدسیاں ہے آج

جس پر نثار موجۂ تسنیم و سلسبیل
بکھری ہوئی وہ کاکلِ عنبر فشاں ہے آج

اللہ رے سیلِ نغمہ و طوفانِ رنگ و بو
موجِ ہوا میں جنبشِ نبضِ جواں ہے آج

شکرِ خدا کہ طرۂ طرفِ کلاہِ دوست
مشعل فروزِ مجلسِ روحانیاں ہے آج

پھر چہرۂ بشر پہ ہے رنگِ الوہیت
پھر فرشِ خاک پر سرِ کرّوبیاں ہے آج

اوجِ فلک پہ موجۂ ابرِ سبک خرام
صحنِ چمن میں جلوۂ سروِ رواں ہے آج

وہ دختِ رز کہ تھی خمِ رنگیں میں معتکف
صد شکر صدرِ انجمنِ مے کشاں ہے آج

اف ری شمیمِ کاکلِ شب رنگ و بوئے عود
دوشِ صبا پہ دولتِ باغِ جناں ہے آج

رندوں کے ساتھ روحِ دو عالم ہے رقص میں
یومِ طوافِ کعبۂ رطلِ گراں ہے آج

ہر آرزو کے فرق پہ کج ہے کلاہِ ناز
'عین الیقیں' بہشت کا وہم و گماں ہے آج

زیرِ نگیں زمین ہے، قبضے میں آسماں
آفاق پر حکومتِ پیرِ مغاں ہے آج

ہر خشک و تر میں گونج رہی ہیں حکایتیں
ہر ذرۂ حقیر کے منہ میں زباں ہے آج

رہ رہ کے اڑ رہا ہے مسیح و خضر کا رنگ
کیا جانے کس لباس میں عمرِ رواں ہے آج

اے جوش زلزلے میں ہے قصرِ تعینات
دل ماورائے قیدِ زمان و مکاں ہے آج

جوش ملیح آبادی


......................
..........................
یارِ پری چہرہ
جوش ملیح آبادی
وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سِدھارا
طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا

گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا

نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا

خوں ریز و کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
ہنستا ہوا مہتاب، دمکتا ہوا تارا

خوش چشم و خوش اطوار و خوش آواز و خوش اندام
اک خال پہ قربان سمرقند و بخارا

گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
ایماں شکن، آئینہ جبیں، انجمن آرا

صبحِ گلِ نوخواستہ و شامِ شگوفہ
مر رہنے کا سامان، تو جینے کا سہارا

آئینۂ رخسار پر اک خالِ سیہ تاب
پیشانئ گل رنگ پر آنچل کا کنارا

آنکھوں کے چمکنے میں تقاضائے تلطف
پلکوں کے جھپکنے میں تمنائے مدارا

وہ لب کہ مہِ نو کی دھڑکنے لگے چھاتی
وہ آنکھ کہ موتی کو نہ ہو صبر کا یارا

کلیوں کی نمایش میں اگر ہو متبسم
ہو اُس کے ہی ہونٹوں کی طرف کثرتِ آرا

نظریں جو اٹھا دے تو لرزنے لگے خورشید
ابرو کو جو بل دے تو ہو مہتاب دوپارا

اللہ ری ملبوس کی تابش شبِ مہ میں
سلما جو دمکتا تھا، جھمکتا تھا ستارا

تھا میری نگاہِ طرب آموز کا پابند
رنگِ لب و رخسار کا چڑھتا ہوا پارا

صندل کی دمک تھی عرق آلودہ جبیں پر
یا نہرِ گلستاں میں تڑپتا ہوا تارا

نغموں کے تلاطم سے تھا جنبش میں لبِ لعل
لہروں کے تھپیڑوں میں تھا دریا کا کنارا

ہر سانس میں اپنے ہی پہ پیچیدہ جوانی
ہر گام پہ بکھری ہوئی زلفوں کا نظارا

اس طرح تبسم میں تحکم کی گھلاوٹ
جس طرح مئے تند کی تلخی ہو گوارا

کاکل کے خم و پیچ سے افشاں کا جھلکنا
ظلمات سے تھا چشمۂ حیواں کا اشارا

سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا

زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا

رُخ بات کا اقرار سے انکار کی جانب
جس طرح ہرن دشت میں بھرتا ہو ترارا

اللہ کرے وہ صنمِ دشمنِ ایماں
مچلے کسی شب جوش کے پہلو میں دوبارا
 جوش ملیح آبادی
 
......................
..........................

 غزل
جوش ملیح آبادی

فکر ہی  ٹھہری تو دل کو فکرِ خُوباں کیوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاکِ کُوئے جاناں کیو ں نہ ہو

زیست ہے جب مُستقِل آوارہ گردی ہی کا نام
عقل والو! پھر طوافِ کُوئے جاناں کیوں نہ ہو

مستیوں سے جب نہیں مستوریوں میں بھی نجات
دل کھُلے بندوں غریقِ بحرِ عصیاں کیوں نہ ہو

اِک نہ اِک ہنگامہ پر موقُوف ہے جب زندگی
میکدے میں رِند رقصاں و غزلخواں کیوں نہ ہو

جب خوش و ناخوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ
ہمنشیں! پھر بیعتِ جامِ زر افشاں کیوں نہ ہو

جب بشر کی دسترس سے دور ہے جبل المتین
دستِ وحشت میں پھر اِک کافر کا داماں کیوں نہ ہو

اِک نہ اِک رفعت کے آگے، سجدہ لازم ہے تو پھر
آدمی محوِ سجُودِ سروِ خُوباں کیوں نہ ہو

اِک نہ اِک ظُلمت سے جب وابستہ رہنا ہے توجوش
زندگی پر سایۂ زُلفِ پریشاں کیوں نہ ہو


......................
..........................

غزل
جوش ملیح آبادی

جی میں آتا ہے ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجئے
کاسۂ دل لے کے پھر دریوزۂ غم کیجئے

گونجتا تھا جس سے کوہِ بے ستون و دشتِ نجد
گوشِ جاں کو پھر اُنہیں نالوں کا محرم کیجئے

حُسنِ بے پروا کو دے کر دعوتِ لطف و کرم
عشق کے زیرِ نگیں پھر ہر دو عالم کیجئے

دورِ پیشیں کی طرح پھر ڈالئے سینے میں زخم
زخم کی لذت سے پھر تیار مرہم کیجئے

صبح سے تا شام رہئے قصۂ عارض میں گم
شام سے تا صبح ذکرِ زلفِ برہم کیجئے

دل کے ہنگاموں کو کیجے دل کے سناٹے میں غرق
رات کی خاموشیوں کو وقفِ ماتم کیجئے

دائمی آلام کا خوگر بنا کر روح کو
ناگہانی حادثوں کی گردنیں خم کیجئے

غیظ کی دوڑی ہوئی ہے لہر سی اصنام میں
جوش! اب اہلِ حرم سے دوستی کم کیجئے

جوش ملیح آبادی
......................
..........................
جوش ملیح آبادی 

بے تعلق ہوں دین و دنیا سے
 حبّ ثروت نہ فکرِ جنت ہے

نہ مجھے شوقِ صبحِ آسائش
نہ مجھے ذوقِ شامِ عشرت ہے

نہ تو حور و قصور پر مائل
نہ تو ساقی و مے سے رغبت ہے

نہ تقاضائے منصب و جاگیر
 نہ تمنائے شان و شوکت ہے

" کچھ مجھے تیرے در سے مل جائے"
 کس منافق کو اِس کی حسرت ہے

کیا کروں گا میں نعمتیں لے کر
میری ہر سانس ایک نعمت ہے

تجھ پہ روشن ہے اے مرے مولا
کہ مرے دل میں سوزِ وحدت ہے

"تیرے انعام " کی نہیں خواہش
بلکہ مجھ کو ' تری' ضرورت ہے

جوش ملیح آبادی
...........................

جوش ملیح آبادی 
ساری دنیا ہے ایک پردۂ راز
اُف رے تیرے حجاب کے انداز

موت کو اہلِ دل سمجھتے ہیں
زندگانئ عشق کا آغاز

مر کے پایا شہید کا رتبہ
میری اس زندگی کی عمر دراز

کوئی آیا، تری جھلک دیکھی
کوئی بولا، سنی تری آواز

ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم کیا ہیں؟
"اک بیاباں میں گم شدہ آواز"

تیرے انوار سے لبالب ہے
دل کا سب سے عمیق گوشۂ راز

آ رہی ہے صدائے ہاتفِ غیب
جوش ہمتائے حافظِ شیراز

 جوش ملیح آبادی
 
جوش ملیح آبادی

سرشار ہوں، سرشار ہے دنیا مرے آگے
کونین ہے اک لرزشِ صہبا مرے آگے

ہر نجم ہے اک عارضِ روشن مرے نزدیک
ہر ذرّہ ہے اک دیدۂ بینا مرے آگے

ہر جام ہے نظّارۂ کوثر مرے حق میں
ہر گام ہے گل گشتِ مصلّیٰ مرے آگے

ہر پھول ہے لعلِ شکر افشاں کی حکایت
ہر غنچہ ہے اک حرفِ تمنا مرے آگے

اک مضحکہ ہے پرسشِ عقبیٰ مرے نزدیک
اک وہم ہے اندیشۂ فردا مرے آگے

ہوں کتنی ہی تاریک شبِ زیست کی راہیں
اک نور سا رہتا ہے جھلکتا مرے آگے

میں اور ڈروں صولتِ دنیائے دُنی سے!
خود لرزہ بر اندام ہے دنیا مرے آگے

جھکتا ہے بصد عجز، کلیسا مرے در پر
آتا ہے لرزتا ہوا کعبا مرے آگے

پیمانے سے جس وقت چھلک جاتی ہے صہبا
لہراتا ہے اک حُسن کا دریا مرے آگے

جب چاند جھمکتا ہے مرے ساغرِ زر میں
چلتا نہیں خورشید کا دعویٰ مرے آگے

جب جھوم کے مینا کو اٹھاتا ہوں گھٹا میں
ہلتا ہے سرِ گنبدِ مینا مرے آگے

آتی ہے دلہن بن کے، مشیّت کی جِلو میں
آوارگئ آدم و حوّا مرے آگے

پیمانے پہ جس وقت جھکاتا ہوں صراحی
جھکتا ہے سرِ عالمِ بالا مرے آگے

پہلو میں ہے اک زہرہ جبیں، ہاتھ میں ساغر
اس وقت نہ دنیا ہے نہ عقبیٰ مرے آگے

جوش اٹھتی ہے دشمن کی نظر جب مری جانب
کھلتا ہے محبت کا دریچا مرے آگے
  
 جوش ملیح آبادی 
........................


جنگل کی شاہزادی
جوش ملیح آبادی 
 

ست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں

گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا

تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی

خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں
طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں

کچھ دُور پر تھا پانی، موجیں رکی ہوئی تھیں
تالاب کے کنارے شاخیں جھکی ہوئی تھیں

لہروں میں کوئی جیسے دل کو ڈبو رہا تھا
میں سو رہا ہوں، ایسا محسوس ہو رہا تھا

اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی
ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی

تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری
ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری

کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے

زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں
سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں

خوش چشم، خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکر
نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا، فسوں گر

کافر ادا، شگفتہ، گل پیرہن، سمن بُو
سروِ چمن، سہی قد، رنگیں جمال، خوش رو

گیسو کمند، مہ وش، کافور فام، قاتل
نظارہ سوز، دلکش، سرمست، شمعِ محفل

ابرو ہلال، مے گوں، جاں بخش، روح پرور
نسریں بدن، پری رخ، سیمیں عذار، دلبر

آہو نگاہ، نورس، گلگوں، بہشت سیما
یاقوت لب، صدف گوں، شیریں، بلند بالا

غارت گرِ تحمل، دل سوز، دشمنِ جاں
پروردۂ مناظر، دوشیزۂ بیاباں

گلشن فروغ، کمسن، مخمور، ماہ پارا
"دلبر کہ در کفِ اُو موم است سنگِ خارا"

ہر بات ایک افسوں ہر سانس ایک جادو
قدسی فریب مژگاں، یزداں شکار گیسو

صحرا کی زیب و زینت، فطرت کی نورِ دیدہ
برسات کے ملائم تاروں کی آفریدہ

چہرے پہ رنگِ تمکیں، آنکھوں میں بے قراری
ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری

لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی
سکّے بٹھانی والی اٹھتی ہوئی جوانی

ڈوبے ہوئے سب اعضا حُسنِ مناسبت میں
پالی ہوئی گلوں کے آغوشِ تربیت میں

حُسنِ ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں
یا جان پڑ گئی ہے جنگل کی تازگی میں

حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
رنگینیاں سمٹ کر 'انسان' ہو گئی ہیں

چینِ ستمگری سے ناآشنا جبیں ہے
میں کون ہوں؟ یہ اُس کو معلوم ہی نہیں ہے

ہر چیز پر نگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
رہ رہ کے اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے

آنچل سنبھالنے میں یوں بل سے کھا رہی ہے
گویا ٹھہر ٹھہر کر انگڑائی آ رہی ہے

کچھ دیر تک تو میں نے اُس کو بغور دیکھا
غش کھا رہی تھی عقبیٰ، چکرا رہی تھی دنیا

گاڑی سے پھر اتر کر اُس کے قریب آیا
طوفانِ بے خودی میں پھر یہ زباں سے نکلا

اے درسِ آدمیّت، اے شاعری کی جنت
اے صانعِ ازل کی نازک ترین صنعت

اے روحِ صنفِ نازک، اے شمعِ بزمِ عالم
اے صبحِ روئے خنداں، اے شامِ زلفِ برہم

اے تُو کہ تیری نازک ہستی میں کام آئی
قدرت کی انتہائی تخئیلِ دلربائی

بستی میں تُو جو آئے، اک حشر سا بپا ہو
آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو

رندانِ بادہ کش کے ہاتوں سے جام چھوٹیں
تسبیحِ شیخ الجھے، توبہ کے عزم ٹوٹیں

نظروں سے اتِّقا کے رسم و رواج اتریں
زہّاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں

آنکھیں ہوں اشک افشاں، نالے شرر فشاں ہوں
کیا کیا نہ شاعروں کے ملبوس دھجیاں ہوں

شہروں کے مہ وشوں پر اک آسمان ٹوٹے
پروردۂ تمدن عشووں کی نبض چھوٹے

اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں
جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں

تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں
ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں

تیری نظر کی رَو سے ہو جائیں خستہ و گم
مشق و مزاولت کے پالے ہوئے تبسم

امن و اماں کے رخ کو بے آب و رنگ کر دے
دنیا کو حسن تیرا میدانِ جنگ کر دے

کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے
خوں اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے

تصنیف ہوں ہزاروں چبھتے ہوئے فسانے
اِن انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے

تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا
اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا

یہ بَن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے
شاعر کے زیرِ فرماں یہ سب رقیب ہوتے

کیوں، میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟
اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے؟

بجنے لگیں وفا کی محفل میں شادیانے
ہاں دے لبوں کو جنبش، اے سرمدی ترانے

یوں چپ ہے، مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے
یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے

سننا تھا یہ کہ ظالم اِس طرح مسکرائی
فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دُہائی

عشوہ، جبیں پہ لے کر دل کی امنگ آیا
چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا

شرما کے آنکھ اٹھائی، زلفوں پہ ہات پھیرا
اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا

چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دلبری کو
دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو

سُن کر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
اُس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئی زبانیں

شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہات پھیرا
دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا

کچھ جسم کو چُرایا، کچھ سانس کو سنبھالا
کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا

تاریک کر کے، میری آنکھوں میں اک زمانہ
جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ

ہونے لگی روانہ، ارماں نے سر جھکایا
دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایا

بے ہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی
اتنے میں رات لے کر قندیلِ ماہ نکلی

مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی
پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی

 جوش ملیح آبادی

Home 



No comments: