Shoukat Ali KhaN Fani Badayuni


غزلِ
فانی بدایونی

  وہ نظر کامیاب ہو کے رہی
 دل کی بستی خراب ہو کے رہی

 عشق کا نام کیوں کریں بدنام
 زندگی تھی عذاب ہو کے رہی

 نگہِ شوخ  کا مآل نہ پوچھ
 سربسر اضطراب ہو کے رہی

تم نے دیکھا ہے مرگِ مظلومی
جانِ صد انقلاب ہو کے رہی
 
 چشمِ ساقی، کہ تھی کبھی مخمور
 خود ہی آخر شراب ہو کے رہی

 تابِ نطارہ لا سکا نہ کوئی
 بے حجابی، حجاب ہو کے رہی

حشر کے دن کسی کی ہر بیداد
کرمِ بے حساب ہو کے رہی

سامنے دل کا آئینہ رکھ کر
ہر ادا لاجواب ہو کے رہی

***************


غزلِ
شوکت علی خاں
فانی بدایونی

ڈرو نہ تم کہ نہ سُن لے کہِیں خُدا میری
کہ رُوشناسِ اجابت نہیں دُعا میری

وہ تم، کہ تم نے جفا کی تو کچھ بُرا نہ کِیا
وہ میں، کہ ذکر کے قابل نہیں فغاں میری

چلے بھی آؤ، کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
سُنو، کہ پھر نہ سُنو گے تم التجا میری

کچھ ایسی یاس سے، حسرت سے میں نے دم توڑا !
جگر کو تھام کے رہ رہ گئی قضا میری

خدا نے زہر کی تاثیر بخش دی فانی
ترس گی تھی اثر کو بہت دعا میری

فانی بدایونی

***************

غزلِ
فانی بدایونی
 
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

  *******************

Home

No comments: