دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے۔۔۔۔ شفیق خلشؔ

 شفیق خلشؔ

دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو ہے
گھر میں بھی آشکارِ اذیّت ر ہیں نہ کم
خوفِ وَبا ، کہ جاں کو اِک آزار ہی تو ہے
ہمّت دِلاتے رہتے ہیں سب کہہ کےیہ ہمیں!
مانع بس اب حصُول میں گفتار ہی توہے
ہر شے کی جا نشینی نہ کیوں یاد ہو خلشؔ
کُل کائنات، اب یہی گھربار ہی تو ہے
شفیق خلشؔ
Image may contain: Shafiq Khalish, suit and eyeglasses

Like
Comment
Share

غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے


شفیق خلشؔ
غزل
غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے

مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے

کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے

کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی نوجوانی اور اُلفت نے دھر لِیا تھا مجھے

کسی بھی طَور قیا مت سے کم نہیں تھے، کہ اِک
نگاہِ ناز سے تسخیر کرلیا تھا مجھے

کم اِنہِماک نہیں تھے وہ مشوَروں پہ مِری
عَمل بھی کرتے تو، سنجیدہ گر لیا تھا مجھے

حَواس باختہ رکھتا تھا سامنا اُس کا !
جمالِ یار نے ، دِیوانہ کرلیا تھا مجھے

اُسے رَچایا تھا جیسا کہ دھڑکنوں میں، خلشؔ !
کچھ ایسا اُس نے بھی سانسوں میں بھر لیا تھا مجھے

شفیق خلشؔ

شفیق خلش۔۔۔ غضب شاعری

شفیق خلش

غزل

غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے

مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے

کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے

کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی نوجوانی اور اُلفت نے دھر لِیا تھا مجھے

کسی بھی طَور قیا مت سے کم نہیں تھے، کہ اِک
نگاہِ ناز سے تسخیر کرلیا تھا مجھے

کم اِنہِماک نہیں تھے وہ مشوَروں پہ مِری
عَمل بھی کرتے تو، سنجیدہ گر لیا تھا مجھے

حَواس باختہ رکھتا تھا سامنا اُس کا !
جمالِ یار نے ، دِیوانہ کرلیا تھا مجھے

اُسے رَچایا تھا جیسا کہ دھڑکنوں میں، خلشؔ !
کچھ ایسا اُس نے بھی سانسوں میں بھر لیا تھا مجھے

شفیق خلشؔ
************


غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے

عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے

رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے

بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ سکے

تھی سعی سب کی ہی مقدُور بھر ڈبونے کی
یہ ہم ہی تھے، جو ذرا زیرِ آب ہو نہ سکے

تُمھارے حُسن سے نیّت یُوں ٹھہری حد پہ کہ اب
کسی بھی طَور، کسی پر خراب ہو نہ سکے

کشش عجیب ہے اُس حُسنِ بے مِثال میں اِک
ہو کوششیں بھی تو اب اجتناب ہو نہ سکے

سُنا ہے جب سے بنفسِ نفیس ہم نے اُنھیں
ذرا کسی سے کبھی لاجواب ہو نہ سکے

رہے اندھیروں میں اکثر یہ سوچتے ہیں کہ وہ
ہماری زیست کے، کیوں ماہتاب ہو نہ سکے

تَکُلّفات کی گُفت و شُنَید میں، ہم بھی
مُقابِل اُن کےکبھی بے حِجاب ہو نہ سکے

جُھلس رہے ہیں جُدائی کےتپتے صحرا میں
تمھارے بِن ذرا زیرِسحاب ہو نہ سکے

ہم اُن کے عشق میں ایسے خراب تھے، کہ خلشؔ
ذرا سا اور کسی سے خراب ہو نہ سکے

تھی اِنکساری طبیعت میں اپنی فطری خلشؔ
حسب نسب تھے! مگر ہم نواب ہو نہ سکے

شفیق خلشؔ

Salected Poetry of Shafiq Khalish


  



شفیق خلش
غزل

ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو
جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو

قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو
شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو

یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ
دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو

سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب!
سِتم سے اپنوں کے حاصِل کہِیں پَناہ تو ہو

لِکھے پہ مشورہ دینا بُرا نہیں، لیکن!
سُخن طرازی میں تھوڑی سی دست گاہ تو ہو

خوشی نہ دی تو خوشی کے لیے دُعائیں د یں!
کرَم نَواز نہیں تُم جو، خیر خواہ تو ہو

ہمارے غم کو پرکھنے، موازنہ کے لیے!
دُکھوں کا اُن کے حوالے سے داد خواہ تو ہو

جہاں کہیں ہو خلشؔ ! ڈُوبنے کا اندیشہ
نَوِشتہ ایسی جگہ پر اِک اِنتباہ تو ہو

ضرور ہونگے مراسم بھی اُستُوار خلشؔ!
قریب رہنے کو کُچھ دِن قیام گاہ تو ہو




وہ سکوت اپنے میں جو شور دبادیتے ہیں
جُوں ہی موقع ملے، طوفان اُٹھادیتے ہیں

خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں 
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں

چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں

آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں 
لیکن اسباب تماشہ سا بنا دیتے ہیں

درد و غم دینے کا کیا غیروں سے شکوہ، جبکہ!
خود مِرے اپنے بھی کُچھ کم نہ جُدا دیتے ہیں

چشم و لَب اُس کے تَصوّر میں ہوں تو نیند کہاں
آنکھ لگ جائے بھی تو خواب جگا دیتے ہیں

خوف لاحق رہے ہردَم ہَمَیں رُسوائی کا
غم توسّط کے ہم ایسے نہ چُھپا دیتے ہیں

ہو گُماں اُن پہ بھی احباب و اقارِب کا ہَمَیں
جب وہ دیوار سے بے وجہ لگا دیتے ہیں

اُس کی خواہش میں ہُوئے لوگ یُوں حاسد، کہ خلشؔ
بیٹھ پائیں بھی جو دَر اُس کے، اُٹھا دیتے ہیں

شفیق خلشؔ
...........................
غزل
شفیق خلش



لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے

جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے



یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے

رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے



خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے

آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے



جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے

رکھ کر خیالِ خاطر و آداب تھک گئے



قائم ہیں سطحِ آب پہ وہ نقش، جن کی سب!
کوشِش میں زیرِآب کی، گرداب تھک گئے

تھی پُر اذیّتوں سے مُسافت نہ پُوچھیے!
ہم کیا سفر کے سارے ہی اسباب تھک گئے

جب اور ظلم کرنے کی طاقت رہی نہ کُچھ!
سب میں اُڑائی میرے تب و تاب تھک گئے

بھرتا کہِیں ہے پیٹ تسلّی سے بھی کوئی!
دے دے کے شہر و دہر کے ارباب تھک گئے

یک مُشت خاتمہ کا، تب آیا اُنھیں خیال
کر کر کے جب سِتَم مِرے احباب تھک گئے

آنکھیں بھی اب وہ دوست خلشؔ مانتی نہیں
جِن میں سجا کے روز نئے خواب تھک گئے

شفیق خلشؔ

.....................................

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شفیق خلش
غزل
فیصلہ کرلے اگر وہ پیش و پس ہوتا نہیں
اِلتجاؤں پر بھی میری ٹَس سے مَس ہوتا نہیں

ہے گِلہ سب سےحضُور اُن کے کئے ہر عرض پر!
کیوں مَیں دوزانوں مُقابل، اِس بَرس ہوتا نہیں

یا الٰہی! اپنی رحمت سے دِل اُس کا پھیر دے 
لاکھ کوشِش پر جو زیرِ دسترس ہوتا نہیں

کوئی تو، اُن کے تکبّر پر کہے اُن سے ذرا 
ایسی باتوں کا نتیجہ دُور رس ہوتا نہیں

لاکھ پردوں میں چُھپائے کوئی بھی اپنا عَمل
غیب کی نظروں میں کچھ بھی مُلتَبَس ہوتا نہیں

ہر سِتَم پر ہو خوشی حاصِل اُنھیں یہ جان کر!
چُپکے چُپکےسہہ رہا ہُوں ،کہدوں بَس، ہوتا نہیں

بد سُخن بھی، بس اِسی اِک سوچ سے برداشت ہوں
ہے کوئی گُلشن، کہ جس میں خاک و خس ہوتا نہیں

کوئی بھنورا،یا کہ عاشِق پاس تک جن کے نہ ہو
ایسے پھُولوں میں عُموماََ، کوئی رس ہوتا نہیں

یُوں تو رہتا ہے ہمیشہ ساتھ میرے وہ خلؔش
سامنا اُس کا ،حقیقت میں ہی بَس ہوتا نہیں

شفیق خلشؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش


جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے



زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے

اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے 



اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے

کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے



رُخِ سیماب پہ آنکھیں ہیں غزالوں جیسی

رنگِ لب اُس پہ گلابوں سے حَسِیں کُچھ کم ہے 


یہ الگ بات ہے آئیں گے نہیں ،کہہ کر بھی
پھروہی وعدۂ آمد ، کا یقیں کُچھ کم ہے 

کیا زمانہ تھا، کہ ہر روز مِلا کرتے تھے !
دِل تعلّق نہ وہ ہونے پہ حَزِیں کُچھ کم ہے

کہہ اُٹھیں لوگ جسے دیکھ کے سبحان اللہ
دِل اُسی زہرہ جبیں کا ہے رَہِیں ، کُچھ کم ہے

ہمہ وقت اُس کی پرستش سے بھی دِل کو تیرے
جب مُکمّل نہ ہو راحت ، تو کہیں کُچھ کم ہے

وجہِ اِفراطِ محبّت، جو ہُوا جاناں کی!
مجھ پہ اُس رب کی عناعت بھی ، کہِیں کُچھ کم ہے

اِک تلاطُم کا جو باعث تھا جوانی میں، خلشؔ 
خُوب رُو ، اب بھی ہوں اُس دِل کے مکیں، کُچھ کم ہے

شفیق خلؔش

  .............
غزل
شفیق خلش


آپ کہیے تو سب بجا کہیے 
کیوں نہ پھر آپ کو خدا کہیے 



دوست کہیے نہ آشنا کہیے

ہیں بضد ہم سے کچھ جُدا کہیے



اُن کو کہیے اگر تو کیا کہیے

دردِ دِل کی نہ گر دوا کہیے



دردِ فُرقت ہے اب سَوا کہیے 

موت یا وہ،  رہی دوا کہیے


 جان کہتے ہیں، راحتِ جاں بھی   
  بڑھ کر اِس سے بھی کیا خدا کہیے

اُن سے کہیے اب اور کیا قاصد
مر رہے ہیں، جو ہیں جُدا کہیے
  
ہر قدم حشر ہو بَپا جن سے  
ہر ادا جن کی اِک سزا کہیے

رَچ گئے ہیں ہماری سانسوں میں 
کیسے اُن سے رہیں جُدا کہیے 

بِچھڑے سب  دوست اُن سے مِلنے پر 
اِس رفاقت کو دُھوپ سا کہیے

اِنتہا ہر عَمل میں ٹِھیک نہیں 
حُسنِ یکتا کو بھی تو جا کہیے

کیا نصیحت کو ہیں ہمِیں ناصح    
کچھ خلِش پر بھی رحم کا کہیے 

شفیق خلش  

  .............
غزل


بیٹھے تِرے خیال میں تصوِیر بن گئے 

خوابوں میں قید رہنے کی تعبیر بن گئے 



نا راستوں کا علم، نہ منزِل کا کُچھ پتہ 

کیسے سفر کے ہم یہاں رہ گیر بن گئے 



کیا کیا نہ ذہن و دِل میں تہیّہ کیے تھے ہم 

اِک ہی نظر میں تابع و تسخِیر بن گئے 



ہم نے تمھارے ساتھ گزارے تھے جو کبھی 
لمحے وہی تو پاؤں کی زنجیر بن گئے

نامُمکناتِ دہر میں شامل تھے وہ، مگر 
ہو سہل ہم پہ قابلِ تسخِیر بن گئے

باقی خیال میں بھی خوشی کی نہیں جھلک 
تم بھی تو ایک مِٹتی سی تحرِیر بن گئے

نِسبت سے تیری خواب جو دیکھا کِیے کبھی
رنج و الم کے سب وہی تعبیر بن گئے

بڑھ کر سب اِبتدائے شبِ ہجر کے سِتم 
آہ و فغاں و نالۂ شبگِیر بن گئے

ہر رات ضبط پر بھی جو نالے تھے سِسکیاں 
پُرشور اُٹھ کے شب مِری تشہیر بن گئے 

ملکہ تھا صبْر پر وہ کہ لِکھتے نہ کُچھ ، مگر 
دِل کے پھپولے باعثِ تسطِیر بن گئے 

رکھّا ہے ہم کو دِل نے کہیں کا کہاں خلش
ہر غم لگا کہ اب مِری تقدِیر بن گئے 


شفیق خلش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش


جب سمن یا گلاب دیکھوں میں 

دل کو خود پر عذاب دیکھوں میں



زیست کی جب کتاب دیکھوں میں 

سب رقم اُس کے باب دیکھوں میں



عاشقی گر نصاب دیکھوں میں ! 

حُسن اُس کا جواب دیکھوں میں 



اُس کے لب اور چشمِ مِینا سے

کیا چَھلکتی شراب دیکھوں میں 

جس کے سِینے میں دِل ہے پتّھر کا 
دِل کو اُس پر ہی آب دیکھوں میں 

دُور ہو تیرگئ شب جس سے ! 
دِن کو اکثر وہ خواب دیکھوں میں

منعقد کیا نہیں تماشے ہیں ! 
کیا نہیں بے حساب دیکھوں میں

اب مسائل کا کچھ بُجز جاناں ! 
حل نہ کوئی جواب دیکھوں میں

ہو تخیّل میں وہ، تو دُھوپ میں بھی 
خود کو زیرِ سحاب دیکھوں میں

حسرت اِک بھی نظر نہیں آئے 
جب جوانی کا باب دیکھوں میں 

چاند بدلی تلے پہ، چہرۂ خوب 
اُس کا زیرِ نقاب دیکھوں میں 

مُستجاب اب ہوئی دُعا شاید ! 
دسترس میں جناب دیکھوں میں 

عمر اب بھی نہیں کچھ ایسی خلش 
ہر عمل میں ثواب دیکھوں میں


شفیق خلش
................
غزل
شفیق خلش


گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا



یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں

ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا



روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی

کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا



وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے

جاں سنبھالے ہُوئے رکھّے وہ جو ہم سا ہوگا


ہم سمجھ لیتے ہیں داغوں کے سُلگنے پہ خلش
درد جب حد سے گُزر جائے تو کم سا ہوگا

شفیق خلش

.............
غزل
شفیق خلش


پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی



اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو 

نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی 



میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں

دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی



بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے

اے کاش پھر سے لوٹیں نہ تنہائیاں وہی


جاتی ہیں عادتیں کہیں پختہ رہیں خلش!
چاہے نہ کب یہ دل کہ ہو، نادانیاں وہی

قوّت کہاں ہے دل میں سہے پھر سے اب خلش
آئیں جو لوٹ کر مری ناکامیاں وہی

شفیق خلش 

 .............
غزل
شفیق خلش


پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے 



رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند 

سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے



ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب

آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے



ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں

لاحق ہماری جان کو حاجت تمہی سے ہے


لو آج تم سے کہتا ہُوں دِل میں چُھپائی بات
جو خود سے بڑھ کے ہے، وہ محبّت تمہی سے ہے 

تم خوش ہو مجھ سے گر، تو خدا بھی ہے خوش مِرا
جو مجھ پہ ہے وہ رب کی عنایت، تمہی سے ہے

نازاں تمھارے حُسن، ملے پیار پر خلِش
اِس پر ہُوا جو سایۂ رحمت تمہی سے ہے 

شفیق خلش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
 

ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے 
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے 



فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے 

ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے



دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا

گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے



راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج

ضبط و حیا سے دِن میں کبھی گر بَھلے رہے


چمکے نہ روشنی میں بھی ہم آفتاب کی 
شب کی طرح یہ دِن بھی تو ہم پر کڑے رہے

ہارے ہیں شب سے یُوں، کہ نظر میں سَحر نہ تھی
دِل میں غُبارِغم تھے کہ، شب بھر بَھرے رہے

مُشکل ہے یہ خلش! کہ ہوں غم زیست سے جُدا
اِک عُمر سے یہ سِینے میں خود سر پَلے رہے

آوارگی کے قصد سے آخر نِکل گئے
تنگ آ گئے تھے ہم بھی بہت گھر رہے رہے

کیا جانیے خلِش اُنھیں کیسا ملال تھا
پہنچے نہ تم ، تو وہ سرِ بستر پڑے رہے

...............

غزل
شفیق خلش


اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم
سب کہَیں عِشق کے ہونے پہ گئے کام سے ہم 



کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم

جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم



اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون، کہاں پر ہم ہیں !

جانے جاتے ہیں اگر اب، تو دِئے نام سے ہم



یُوں نہ تجدیدِ تعلّق کا اب اِمکان رہا !

ٹھہرے نظروں میں ہیں اُس کی بھی تو بدنام سے ہم


کیا پہنچ پائیں گے منزِل پہ کبھی یہ سوچو !
دِل گرفتہ اگر ایسے رہے ہر گام سے ہم

فکرِ فردا کریں، کُچھ غور رہے حال پہ تب !
جب نِکل پائیں بھی گُزرے ہُوئے ایّام سے ہم

جاں میں طاقت بھی نہیں اب، کہ زمانے سے لڑیں
کھو چُکے زور وہ سب ہجر کے آلام سے ہم 

وہ گلی یاد ہے مجنوُں کو، تِرے پاگل کو
جانے جاتے تھے جہاں، ایسے کئی نام سے ہم

کہہ کے اب تم کو خَلِش کون پُکارے گا یہاں
ہو گئے اپنا وطن چھوڑ کے بے نام سے ہم

شفیق خلش

..............
غزل
شفیق خلش

اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے 
اپنے اِرادے سارے انجام سے گئے

اُلفت میں خوش رُخوں کی، خوش نام سے گئے
ہم جس جگہ گئے ہیں ، بدنام سے گئے


اظہارِ آرزو سے کُچھ کم غضب ہُوا

مِلنا مِلانا دُور اِک پیغام سے گئے



مِلتی ہے زندگی کو راحت خیال سے 

حاصل وہ دِید کی ہم اِنعام سے گئے



جب سے نِہاں ہُوئی ہے آنکھوں سے وہ غزل

اشعار نکتہ سنجی، اِیہام سے گئے 



افسوس حرصِ دِل پر رہتا نہیں ہے کب 
لالچ میں ہم سبُو کی اِک جام سے گئے

درباں نے دُور دَر سے، پھینکا ہمَیں ہمیش 
کب اُٹھ کے گھر کسی کی دُشنام سے گئے 

تھا زعم، بچ نِکلنے کا دام سے خلش! 
کم احتیاطِ اُلفت میں، کام سے گئے

شفیق خلش

...............
غزل
شفیق خلش



خراشِ دل پہ جمائی تھی جو کمال کے ساتھ
وہ دُھول زخم کی صُورت ہٹی خیال کے ساتھ

تمام عمر کٹے کیوں نہ پھرملال کے ساتھ
جو فیصلے ہوں محبّت کےاشتعال کے ساتھ 


مری حیات کو،جھونکے ہوئے بہار کے اب 

وہ چند لمحے جو بیتے تھے خوش جمال کے ساتھ



سمجھ سکے نہ تعلق وہ، لاکھ سمجھایا

گو گفتگو رہی اُن سے مری مثال کے ساتھ 



تھی کیسی دُور نگاہی ، نظر نہ آیا اُنھیں

خود اپنا خاک میں مِلنا مِرے زوال کے ساتھ



کچھ اور ساتھ بھی رہتے تو کیا بدل جاتا 
نبردآرا ہی رہتے کسی ملال کے ساتھ 

حق اپنا مُفت میں مجھ پر جما رہے تھے خلش
بسر کچھ اور تھا مشکل اب اُس دیال کے ساتھ

شفیق خلش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش

رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُھپے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح

تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح

یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح

پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے ہے اِک اعزاز کی طرح

دِل اُس کے مُسکرانے پہ ہو مُطمئن نہ کیوں
ہے یہ بھی خوش شگونیِ آغاز کی طرح

عاشِق سے کیا بعید! اُڑان اُس کی جب رہے
اک بازِ با اِرداہ کے پرواز کی طرح

مولوُد پر ہُوا جو، بَھلا کب نہیں ہُوا
رونا وہی ہے زیست کی آغاز کی طرح

تشبیہ یا مِثال کی صُورت کوئی تو ہو !
کچھ بھی کہاں جہاں میں ہے خوش ںاز کی طرح

ہر شے اُداس ہجر میں اُس کے ہے اب خلش
بے چین دِل، طبیعتِ ناساز کی طرح

شفیق خلش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
 ​ 

 دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے 
ہاں مگر اِس کا، کہ سب حال بتا دیتا ہے 



دِن گُزارے ہیں سَرِ چاکِ زمانہ، لیکن 

یہ بھی ہر شام وہی شکل بنا دیتا ہے 



رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ ! 

نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے 



ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پا کر 

کیا نہ منظر کہ نِگاہوں میں سجا دیتا ہے


صُبْح پھر شمعۂ دِل سارے سہارے کھوکر 
وصلِ موہُوم کی لَو حد سے گھٹا دیتا ہے

سانس رُک رُک کے چلے جب، تو ہو احساس کہ اب 
دِل اجَل کو مِری، آنے کی نوا دیتا ہے

اب تو اُٹھنے کی غمِ ہجر سے سوچے پہ خلش
ضعفِ دِل اور بھی بستر سے لگا دیتا ہے

شفیق خلش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   
غزل
شفیق خلش


آہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی



یاد ٹلتی نظر نہیں آتی 

رات ڈھلتی نظر نہیں آتی 



کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے 

دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی



گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا 

یاس ہٹتی نظر نہیں آتی


یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج 
سانس چلتی نظر نہیں آتی 

کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو 
سوچ بٹتی نظر نہیں آتی

ٹھہری ایسی ہے خوش خیال پہ ایک 
عُمر کٹتی نظر نہیں آتی 

ایک خواہش نے کیا جَلا ڈالا 
خود گو جلتی نظر نہیں آتی 

وہ اُفق پر ہے چاندنی کے ہمَیں 
ساتھ چلتی نظر نہیں آتی

خاک تاثیر بھی محبّت کی ! 
جو بدلتی نظر نہیں آتی

ایسی سِل برف کی ہے دِل پہ لِئے 
جو پگھلتی نظر نہیں آتی

حِدّتِ عشق کارگر بھی نہیں 
دال گھلتی نظر نہیں آتی

یہ ملال اب ہمَیں کہ کیوں ہم پر 
وہ اُچٹتی نظر نہیں آتی 

ہو تغافل پہ کیا گلہ کہ خلش 
آگ جلتی نظر نہیں آتی 

مانیے اُلفت ایک طرفہ خلش ! 
اُن میں پلتی نظر نہیں آتی

شفیق خلش

..........................
غزل
شفیق خلش
  
عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے
ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے

زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل
وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے

بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن
 دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے

کیا اُمید اُن سے کچھ  بدلنے کی 
ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے

  وہ جنھیں ہم نے دی ذرا عِزّت
پَھیلے ایسے کہ گو خُدا بھی ہُوئے
 
ظلم پھر ہوش نے نہ کم  ڈھائے  
جب ذرا غم سے ہم رہا بھی ہُوئے

کیا سِتم! حال یُوں ہے جن کے سبب
وہ مَرَض کا مِرے  دوا بھی ہُوئے

 اُس نے سوچا تو ہوگا میری طرح
کیا الگ ہو کے ہم جُدا بھی ہُوئے

بات سُننے کو خود بَضِد تھے، خلش 
جب کہی دِل کی تو خفا بھی ہُوئے


شفیق خلش
.................. 
غزل
شفیق خلش

نہیں جو عِشق میں رُتبہ امین رکھتا تھا
میں اپنا دِل تک اُسی کا رہین رکھتا تھا

رہی جو فکر تو نادان دوست ہی سے مجھے
وگرنہ دشمنِ جاں تک ذہین رکھتا تھا

خیال جتنا بھی اُونچا لیے پھرا ، لیکن
میں اپنے پاؤں کے نیچے زمین رکھتا تھا

خُدا کا شُکر کہ عاجز کِیا نہ دل نے کبھی
میں اِس کو دوست ہمیشہ حَسِین رکھتا تھا

کسی بھی شہر، کسی مُلک میں جہاں بھی گیا
جِلو میں اپنی میں عُمدہ ترین رکھتا تھا

نہیں یُوں یاد ہر اِک کو، کہ میں حَسِیں تھا، مگر
ہمیشہ ساتھ میں زہرہ جبین رکھتا تھا

چُنا اگر تو اِک ایسا ہی زندگی کو خلش
کمر گُلوں میں جو سب سے مہین رکھتا تھا

شفیق خلش

..................
غزل
شفیق خلش

ہمارے من میں بسے جو بھی روگ ہوتے ہیں
شریر کے کسی بندھن کا سوگ ہوتے ہیں

جو لاگ، بیر کسی سے بھی کُچھ نہیں رکھتے
وہی تو دہر میں سب سے نِروگ ہوتے ہیں

بُرا، بُرے کو کسی دھرم کا بنا دینا
بَھلے بُرے تو ہراِک میں ہی لوگ ہوتے ہیں

پریمیوں کے محبّت میں ڈوبے من پہ کبھی
دُکھوں کے سارے ہی کارن بروگ ہوتے ہیں

نہ دِل میں رکھتے ہیں سنجوگ کا خلِش جوخیال
ہرایک بستی میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

شفیق خلش

.........................





























غزل

شفیق خلش

اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے

لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے

اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے

دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی حیرانی ہو !
یوں وہ آنکھیں لئے کاجل سے سجی پھرتے تھے

یادِ محبُوب میں کیا کرب تھا، ایّامِ فراق !
لے کے آنکھوں سے رَواں ایک جھڑی پھرتے تھے

جذبِ دِل اُن کو دِکھانے میں تردّد تھا، خلش
ورنہ ہاتھوں میں دِئے ہاتھ سبھی پھرتے تھے

شفیق خَلِش
.................................
غزل
شفیق خلش

دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم

لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم

دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم

بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے ڈھوتے نہیں ہیں ہم

اب، دسترس میں جب نہیں اِک دِید تک رہی
کب چشمِ اِلتفات کو روتے نہیں ہیں ہم

چاہت کسی کی جاں کو نہ آجائے سوچ کر
دل میں خود اپنے بیج یہ بوتے نہیں ہم

جس نے کبھی نہ پیار سے دیکھا ہمیں، خلش
اُس کی طلب سے ہاتھ بھی دھوتے نہیں ہیں ہم

شفیق خلش

....................
غزل
شفیق خلش

دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری

ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری

حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری

تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری

دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری

کیا عِلاج اُن سے میرے درد کا ہو
آہ میری جنھیں طرب ٹھہری

جائے گی لے کے اِنتظار کو ساتھ
اُن کی فُرقت میں جاں بَلب ٹھہری

اب تو دِن کو بھی دیکھتے ہیں خلش
کُچھ قیامت سے کم نہ شب ٹھہری

شفیق خلش

...................
غزل
شفیق خلش

اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں
کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں

ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک
کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں

سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ
کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں

سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم
اب اور نہ مِلنے کے جو ہرجانے ہُوئے ہیں

اب خود ہی چَھلک جاتے ہیں آنکھوں سے مِری اشک
لبریز غمِ ہجر سے پیمانے ہُوئے ہیں

قسمت میں نہیں خاک خلش، آپ یہ سمجھیں
پتھر سے بنی شمع کے پروانے ہوئے ہیں

شفیق خلش

..............

غزل
شفیق خلش

حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے

جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے

لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے

افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم آئے

کم ظُلم و سِتم تم نے ہم پر نہ روا رکھّا
دے وعدہ و آمد کے پیغام نہ تم آئے

تنہا جو کیا تم نے، دُنیا نے لِیا ہاتھوں
کیا کیا نہ لگے ہم پر اِلزام نہ تم آئے

لوگوں سے سُنے ہم نے اِس ترک تعلّق پر
تمہاری ہی نِسبت سے دُشنام نہ تم آئے


اب آئے تو کیا آئے، کُچھ دل کو نہیں پروا
جب ہجر و مصائب کے ایّام نہ تم آئے


سب درد و خلش دِل سے دھونے کا اِرادہ تھا
تیار تھے بِکنے کو بے دام نہ تم آئے

شفیق خلش 

..................... 
غزل
  شفیق خلش

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس

خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس

حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس

کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس

بارہا، در سے اُٹھانے پہ دوبارہ تھا وہیں !
میں رہا دِل سے خود اپنے ہی یُوں ناچار کہ بس

اِک خوشی کی بھی نہیں بات سُنانے کو خلِش
گُذرے ایسے ہیں مِری زیست کے ادوار کہ بس

شفیق خلش

............

غزل
  شفیق خلش

تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں
حالات اب اِس دل کے بہت غور طلب ہیں

آساں نہیں کُچھ، ضعف میں اُلفت سے کنارہ
اعمال سب اِس مد میں بہت زور طلب ہیں

آسودۂ اعصاب ہیں کب عِشق میں اُن کے
سمجھیں جوخموشی سے کہ ہم جور طلب ہیں

کچھ شرطِ وفا ضبط و خموشی سے ہے منسوب
کچھ نالے رسائی کو وہاں شور طلب ہیں

اِک جور پھر اُس پر یہ کہ چُپ سادھ سہیں ہم
کیا اُن کی محبّت کے خلِش طور، طلب ہیں

شفیق خلش

....................
غزل
شفیق خلش 

حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے

جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے

لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے

افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ وہ آئے

کم ظُلم و سِتم اِک بھی ہم پر نہ رَوا رکھّا
دے وعدہ و آمد کے پیغام نہ وہ آئے

تنہا جو ہُوئے اُن سے، دُنیا نے لِیا ہاتھوں
کیا کیا نہ لگے ہم پر اِلزام نہ وہ آئے

لوگوں سے سُنے ہم نے اِس ترک تعلّق پر
کیا کیا نہیں نِسبت سے دُشنام نہ وہ آئے

اب آئے تو کیا آئے، کُچھ دل کو نہیں پروا
جب ہجر و مصائب کے ایّام نہ وہ آئے

دُکھ درد خلش دِل سے دھونے کا اِرادہ تھا
تیار تھے بِکنے کو بے دام نہ وہ آئے

شفیق خلش 
.......................
غزل
شفیق خلش

روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا

دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا

کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا

راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا

اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا

کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا

وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے گیا

تھی مگر اب خوشی نہیں
غم کا وہ ڈھال لے گیا

میری ہنسی لبوں سے وہ
ماہِ شوال لے گیا

دِل تھا خلِش جوسِینے میں
شاہِ جَمال لے گیا

شفیق خلش

..............
غزل
شفیق خلش

دِل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں

کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں

بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں

کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ جیسے آنکھوں کی کاجل نمی سے پھیلے ہیں

اُجاڑ راستے محرومِ سایۂ اشجار !
اِنھیں بھی پیش مِری زیست سے جھمیلے ہیں

درِیچے، برہنہ شاخوں کے اب نظاروں سے
مِری طرح ہی جُدائی کا کرب جَھیلے ہیں

انا گئی، کہ ہیں عاجز ہم اپنے دِل سے خلش
ہمارے ہاتھ ، تمنّا میں اُن کی پھیلے ہیں

شفیق خلش

............................
غزل
شفیق خلش
منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے

مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے

بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے

اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب تصوّرِخوش دِید کے رہے

خود پر اُداسیوں کا سبب کیا کہیں، بُجز
کچھ کم کرَم نہ ہم پہ وہ خورشید کے رہے

اپنا خیال رکھنا، خبر بھیجنا ضرور !
منظر نظر میں روتے بھی تاکید کے رہے

کم گو بِچھڑ کے اُس سے ہیں احباب پر خلِش
اب دن کہاں وہ قصّے، وہ تمہید کے رہے

شفیق خلش

................
غزل
شفیق خلش

 آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے
گھر پھربھی میری قید کا بُہتان تھا لئے

طرزوعمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے
جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے

کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے
دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے

دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے
ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ میں انجان تھا لئے

مُرجھا گئے وہ دِل کو، زمانے گزر گئے
خوش باش زندگی کے جو ارمان تھا لئے

احباب مِلنے میری اسیری میں آئے جب
داروغہ میری موت کا فرمان تھا لئے

افسوس کیوں جو موت کا باعث بھی تم رہے
خواہش یہی تو دِل میں وہ نادان تھا لئے

حیرت ہُوئی جو سنگ زنی میں تھا پیش پیش
وہ شخص، سر کئی مِرے احسان تھا لئے

اُس مدّ و جزْرِ عِشق سے بچنا، نصیب کیوں
کم سرو قد وہ ذات میں طوُفان تھا لئے

احساس ہو چَلا ، کہ قضا آچُکی خلش
عالم وہ دیدنی کا مِری جان تھا لئے

شفیق خلش

.......................
غزل
شفیق خلش

نہ دِل میں غلبۂ قُرب و وصال پہلا سا
کبھی کبھی ہی رہے اب خیال پہلا سا

لئے ہم اُن کو تصوّرمیں رات بھر جاگیں
رہا نہ عِشق میں حاصِل کمال پہلا سا

زمانے بھر کی رہی دُشمنی نہ یُوں ہم سے
رہا نہ عِشق میں جوش و جلال پہلا سا

ذرا سا وقت گُزرنے سے کیا ہُوا دِل کو
رہا نہ حُسن وہ اِس پر وبال پہلا سا

انا اچانک اب ایسی ہے مجھ میں دھر آئی
نہ در پہ جا کے ہو اُس سے سوال پہلا سا

ہُوں اپنے حال پہ قانع، کہ جو ہُوا سو ہُوا
نہ اُس کو کھونے پہ اب وہ ملال پہلا سا

عجب اِک کیفیتِ دِل کا سامنا ہے، خَلِش
وگرنہ اب بھی ہے اُس کا جمال پہلا سا

شفیق خلش
........................

غزل
شفیق خلش

نہ عُمر یُوں ہی رَہِ خاردار  گُزرے گی
ضرور راہ کوئی پُربہار، گُزرے گی

سواری پیار کی پھر ایک بار گُزرے گی
نجانے دِل کو یہ کیوں اعتبار، گُزرے گی


گُماں کِسے تھا اُسے آنکھ بھر کے دیکھا تو
نظر سے میری وہ پھر بار بار گُزرے گی

تمھاری یاد بھی گُزری جو غمکدے سے مِرے
نشاطِ زِیست کی رتھ پر سوار گُزرے گی

گُزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی، لیکن
بڑی اُداس، بہت بےقرار گزرے گی

کِسے خبر تھی جو پاگل پہ دہرمیں گُزرے
اُسی طرح بہ تمنائے یار گزرے گی

انا یوں آڑے رہی اُس سے اِلتجا پہ مِری
کرَم پہ اُس کے مِری زیربار گرے گی

خِزاں گزِیدہ چمن ہُوں میں مُستقِل سا خلِش
نہیں یقین، کہ پھر سے بہار گُزرے گی

شفیق خلش
........................
غزل
شفیق خلش

" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے

نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے

کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے

زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل پہ مِرے اختیار راہ میں ہے

کہاں پہ لائی ہے منزِل کی جستجو مجھ کو
کوئی پیادہ، نہ کوئی سوار راہ میں ہے

پہنچ نہ پائے محبّت کی کوئی منزل کو
عداوتوں کا وہ گرد و غُبار راہ میں ہے

خبر دو میرے وطن کے سب بھائی بہنوں کو
کہ بندہ ہجر کی اذیت گزار راہ میں ہے

یہی بس سوچ کے بیٹھے ہیں خوش بہ راہِ چمن
بہار بھی نہیں جس بن بہار، راہ میں ہے

یہ دیکھیے کہ پہنچتا ہے کون پہلے اب
مِری اجل کی طرح میرا یار راہ میں ہے

گزُر گئی ہے خلِش عُمر اِک یہی سُنتے !
وہ جس کا تجھ کو رہا انتظار، راہ میں ہے

شفیق خلش
..................
  
غزل
شفیق خلش

راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا
آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا

اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی
جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا

بھیجا ہے میری بُھوک نے مجھ کو وطن سے دُور
مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا

سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں
خوشیوں میں غم کا آج بھی دھرنا کہاں گیا

جو دیس سے گیا ہے، وہ رویا ہے دیس کو
کہتے تھے جس کو ہم کبھی اپنا کہاں گیا

جاؤں پلٹ کے، اب بھی یہ خواہش تو ہے خلش
اپنوں سے سے، اپنے دیس میں ڈرنا کہاں گیا

شفیق خلش

***********
..............................

غزل
شفیق خلش

جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا

قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا

سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری
چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا

چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشِق ہُوں مگر دِل ذرا گھائل نہیں رکھتا

شاداں ہُوں مِلی مہوشِ خُوباں سے ہَمہ وقت
دِل اور کسی حُسن پہ مائل نہیں رکھتا

کیا کیا نہ تدابِیر دِل و ذہن میں رکھّے
کُچھ کرنے کو جو شخص وسائل نہیں رکھتا

تفتیش زمانے کو ہے کیوں حال کی میرے
ہے کون جو دُنیا میں مسائل نہیں رکھتا

مُجرِم میں ہُوا کیوں طلبِ یار پہ اپنے
ہے کوئی درِ حُسن جو سائل نہیں رکھتا ؟

اِک لمحہ کہاں اپنا مجھے ہوش رہا اب
کب ذہن میں، وہ حُورِ شمائل نہیں رکھتا

نالاں ہیں سب احباب خلِش صبر سے یُوں بھی
پیش اُن کے کبھی اپنے مسائل نہیں رکھتا

شفیق خلِش

  .............
غزل
شفیق خلش

یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے
جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے

دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے
ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے

راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے
کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے

اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے
گھر جو مرضی سے ہماری کبھی آئے نہ گئے

شاملِ حال رہِیں میرے، دُعائیں سب کی
اُن کی اُلفت کے مِرے سر رہے سائے نہ گئے

دِل کے سب دِل میں رہے راز، کِسے کیا کہتے
درجۂ دوست تک احباب بھی لائے نہ گئے

چھوڑنا ہم کو پڑا بادِلِ ناخواستہ گھر
فیصلوں میں جو تسلسل سے بٹھائے نہ گئے

دَیں نہ کیوں حُسنِ بَلاخیز پہ الزام، کہ جب
دوسرے خواب تک آنکھوں میں سجائے نہ گئے

سب گُماں جو ہمیں لاحق تھے یقیں میں بدلے
شکوک اُن سے جو ذرا دِل کے مِٹائے نہ گئے

موسمِ گُل ہی نہیں وجۂ آشفتہ سری !
ہم تِری یادوں سے کِس پَل کہ ستائے نہ گئے

شک کوئی چارہ گری پر نہ ہو، اے چارہ گرو !
ہم سے غم اپنے، دِلاسوں میں دبائے نہ گئے

ہوکے لازم رہے جینے کو تنفس کی طرح
بِیتے لمحے جو تِرے سنگ، بُھلائے نہ گئے

یاد آتے ہی نہیں اُن کو کسی طور خلش
ہاں مگر اوروں سے جب ناز اُٹھائے نہ گئے


شفیق خلش
 .............
غزل
شفیق خلش

کہے ہے اب بھی وہی دِل، کہ جا بتانے جا
گُزر رہی ہے جو فُرقت میں وہ سُنانے جا

چُھپا خُلوص تُو میرا اُنھیں جتانے جا
جَبِیں بہ سنگِ درِ مہ جبیں لگانے جا

نہ چاہتے ہیں وہ مِلنا تو کوئی بات نہیں
بس ایک دِید سے اُن کی مجھے لُبھانے جا

قریب جانے کا اُن کے کہے ہے کون تجھے
دِکھا کے دُور سے مجھ کو، وہی ستانے جا

اب اور دردِ جُدائی میں سہہ نہیں سکتا
ہُوئے ہیں تَیر یُوں ایّام جُوں زمانے، جا

ہے اِلتجا، کہ ذرا اپنے بھی سُکوں کے لئے
خوشی سے توُ مِری، مجھ کو کبھی مِلانے جا

رہا میں کم نہیں عاجِز بَدستِ دِل بھی خلِش
گلی میں اُن کی بضد ہے کسی بہانے جا

شفیق خلش

................
غزل
شفیق خلش


چل اب یہاں سے کسی اور کو بنانے جا
کروں یقین میں تیرا گئے زمانے جا


کہا یہ گریہ کا احوال سُن کے قاصد سے
کہ خوب آتے ہیں ٹسوے اُنھیں بہانے جا

صدا تھی دِل کی نہ مِلنے کے ہر تہیّہ پر
بس ایک بار نصیب اور آزمانے جا

بذاتِ خود بھی کہی بات پر مِلا یہ جواب
یہ سبز باغ کسی اور کو دِکھانے جا


ہر ایک بات تِری مان لوں گا میں ناصح !
پھر ایک بار جو اُن سے مجھے مِلانے جا


نہ چاہتے ہیں مزید اب وہ رسم و راہ کوئی
غرض بِنا نہیں اُلفت تو پھر منانے جا


پسِیج دِل کو اب اُن کے فروتنی سے خلِش
آنا کو چھوڑ لُٹا عِجز کے خزانے جا


شفیق خلش
..................
غزل
شفیق خلش

گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم
جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم

بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں
لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم

نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور
توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم


اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں
نبرد آرا سا رہتے ہیں کِس وبال سے ہم

نئے بَرس سے توقّع، نہ خیر کی اُمِّید !
کہ خوش رہے نہ کسی بھی گُزشتہ سال سے ہم

مِلے وہ ہم کو جنھیں ہم نے اپنا مانا ہے
دُعائیں روز کریں ربِّ ذوالجلال سے ہم

رہے گا ذکر ہمارا، ہمارے بعد سہی !
سُخنوری میں رہے کم نہ کُچھ کمال سے ہم

زبانِ خلق پہ رہتا ہے ذکر یُوں بھی خلِش
کہ عاشقی میں ہیں اُن کی نہ کم مِثال سے ہم

کمال، فہْم وفصاحت میں شعر یُوں ہیں خلِش
کہ گُفتگوُ میں رہے دُور اِبتذال سے ہم

شفیق خلش

 .....................
غزل
شفیق خلش
 
کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے
کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے

نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو
کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے

رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی
تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے

خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا
مُماثلت میں، جو پُوچھو تو کُچھ جُدا نہ لگے

یقین میری محبّت پہ آگیا، شاید
سزا وہ دیتے ہیں ایسی، کہ جو سزا نہ لگے

اب اور مشورے اُن کو نہ دو خُدا کے لیے
تمھاری بات جنھیں اب کوئی بجا نہ لگے

بہار آئی ہے، پھر بھی ہے اُن کے دل میں خلش
تو پُھول جیسا وہ چہرہ، کِھلا کِھلا نہ لگے

شفیق خلش
........................
غزل
شفیق خلش
آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف
بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف

کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ
جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف

اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے
پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف

فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال
جاتا کہاں سے ذہن بھی گھربار کی طرف

کیسے بچائے خود کو کوئی ڈوبنے سے جب
کھنچتی ہو ناؤ زیست کی منجھدار کی طرف

جاتا ہے لے کے اب بھی تمھاری گلی میں دِل
پڑتی ہے کب نظر درودیوار کی طرف

افسوس پورے شہر میں رُسوائیوں کا تھا
کب دیتے ہم توجہ ہیں دو چار کی طرف

یوں تو چمن میں اور ثمربار تھے بہت
مائل تھا دل مِرا اُسی نوبار کی طرف

حائل رُکاوٹوں میں اضافہ ہُوا بدیس
لایا ہے عِشق کھینچ کے بیگار کی طرف

کیا زندگی کا ہم سے جُدا فیصلہ بھی ہو
دِل کا جُھکاؤ اب بھی وہی یار کی طرف

قائم رہے انا پہ ہمیشہ ہی ہم خلش !
اٹھے نہیں قدم کبھی دربار کی طرف

حاصل فقط خلش ہو خلش کچھ جتن بِنا
آیا ہے مال خود بھی خریدار کی طرف ؟

شفیق خلش 

...............
غزل
شفیق خلش

زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر
اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر

پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں
پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر

جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز
پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر

املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں
بیٹھیں ہیں مِلکیّت وہ سب اغیار بیچ کر

سایے سِوا، وسیلۂ خوراک بھی جو ہوں !
لاحق ہو بُھوک ایسے سب اشجار بیچ کر

ہیں کمسنی سے زیرِ تسَلُّط غمِ شکم !
بدلِیں نہ ہم سے حالتیں ادوار بیچ کر

گُفت و شُنِید ہی میں ہے خالی مکاں کا حل
قبل اِس کے مال اُڑائیں گھراغیار بیچ کر

آبا کی تاجداری کا جن کو یہاں تھا زعم
آئے پلٹ کے کچھ نہ کچھ ہر بار بیچ کر

اچّھا ہُوا کہ کچھ تو حقیقت کُھلی، خلش
کھا جاتے ورنہ ہم کو بھی غمخوار بیچ کر

شفیق خلش

...............
غزل
شفیق خلش 
ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات

تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات

عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات


اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار بھی ہو
لِئے وہ خود میں جہنّم کی ایسی آگ تھی رات

رُکی رُکی کبھی سانسیں، کبھی نہ ہوش کوئی
گُزر رہے تھے عجَب مرحَلوں سے ہجر کی رات

برابراب بھی مِرے ذہن و دِل کو ڈستی ہے
تمھارے وعدۂ آمد سے ٹھہری مُوذی رات

اُمیدِ وصْل سے چَھٹتی نظر نہیں آتی !
جو زندگی پہ ہے طاری خلِش کی رات ہی رات

شفیق خلش

...................
غزل
شفیق خلش
 سُنائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے
ہو کورچشم کوئی تو کہاں نظر آئے

رَوا قدم ہے ہر اِک اُس پہ اِنتہائی بھی !
مگر یہ تب، کہ ہمیں رازداں نظر آئے

چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے
جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے

زمیں کے رحم و کرم پر ہی اِنحصار یہ کیوں
ذرا ہمیں بھی کہیں آسماں نظر آئے

ہمارے، شہر سے ہجرت کی سازشوں میں شریک

قریبی دوست، بہت شادماں نظر آئے

خلش وہ لاکھ چُھپائیں ہنسی کے پردے میں
کتابِ رُخ پہ مگر داستاں نظر آئے

شفیق خلش

......................
غزل
شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے


فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے

مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے

کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں
اُنھیں تو میری ہر اِک بات عامیانہ لگے

اُنہی کی ذات ہو مُنتج ہمارے حال پہ جب
مِزاج پُرسی کا ہر لفظ تازیانہ لگے

جو کِھل نہ پایا کسی طَور آرزُو کا کنْول !
ڈھلا غزل میں تو، ہر لفظ عاجزانہ لگے

اب اور کُھل کے اُنھیں حالِ دِل سُناؤں کیا
جنھیں غزل یہ مِری، اب بھی عاشقانہ لگے

تمھاری بیخ کنی پر تُلے وہی ہیں، خلِش
سُنے پہ جن کی ہر اِک بات مُخلصانہ لگے

شفیق خلش
...................
غزل
شفیق خلش
رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج
اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج

مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج
کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج

ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج
پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج

نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا
محکم نہ ہو یقین کہ، مجھ سے خفا ہے آج

وجہِ سرُور و کیف ہمیشہ رہی جو ذات
ترکِ تعلقات سے مجھ پر سزا ہے آج

اُس محشرِ خیال کی یادوں سے درد نے
ہر ضبط و اِنتہا سے تجاوز کِیا ہے آج

کیوں کُھل کے گفتگو کبھی اُن سے نہیں رہی
آنکھوں میں اِس ملال کی آئی گھٹا ہے آج

اب اور اِس حیات و مصائِب کا ذکر کیا
چُھٹکارا ہرغموں سے بَفضلِ خُدا ہے آج

وہ خُوب گو، جو باتوں سے تھکتا نہ تھا خلش
فرقت پہ اِس دیار کی، کیا بے نوا ہے آج

کافر یُوں بُت پرستی میں مُطلق نہیں خلش
اُس کی زباں پہ ہجر میں وِردِ خُدا ہے آج

شفیق خلش

............................
غزل
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ

گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ

اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ

نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ دامنِ دِل میں مِرے سحر سے آگ

ہر ایک شخص کو معلوُم ہے یہ اچھّی طرح
لگائے کون اور آتی ہے یہ کِدھر سے آگ

جلا کے رکھ دی ہے نفرت نے ایک دوجے کو
نہ آئی گھر میں لگی یہ، کسی نگر سے آگ

دو طرفہ کیا ہی ُمصیبت ہے پیش شب میں خلش
کبھی تپش بڑھے دِل کی، کبھی جگر سے آگ

شفیق خلش

.........................
غزل
شفیق خلش 
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں

ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں

یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں

تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں

بھائی پربھائی کی کھینچیں ہُوئی تکبیریں ہیں

قید ہیں لوگ کبھی گھر میں خود اپنے، اِس میں
اور کبھی صُبحِ نوآزادی کی تنوِیریں ہیں

دِل دُکھانے یا لُبھانے کو نہیں کیا اِس میں
سر چُھپانے کو نہیں گھر کہیں جاگیریں ہیں

اِس میں گردانا محبّت کو مُصیبت ہے کہیں
اور کہیں پیار محبّت ہی کی تدبیریں ہیں

حُسن مجبُور کہیں ہے، کہیں ظالم اِس میں
پائے عاشق میں کبھی آہنی زنجیریں ہیں

خوش خیالی رہے پڑھ کر کبھی رنجیدہ رہیں
دِل کے قرطاس پہ ایسی کئی تحریریں ہیں

شاعری خوب نہ سب کی، نہ بُری ساری خلش
ہے نمایاں کہیں خوبی، کہیں تقصیریں ہیں

شفیق خلش

.....................
غزل
شفیق خلش
نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے
ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے

رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے
تمھارے گھررہیں گے تم کوزنداں ہم نہ کہتے تھے

نہ پاؤگے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی!
ہراِک سے مت رہو دست وگریباں ہم نہ کہتے تھے

بشر کی زندگی سے یُوں محبّت روٹھ جائے گی
رہے گا ہاتھ میں کوئی نہ داماں، ہم نہ کہتے تھے

مذاہب کے اُصولوں کو بنا کر اپنی مرضی کے
جلا ڈالیں گے اِنساں ہی کو اِنساں، ہم نہ کہتے تھے

ہماری بات کا مطلب یونہی کچھ اخذ کرکے ہی !
رہے گا اِک زمانہ ہم سے نالاں، ہم نہ کہتے تھے

جنُونِ عشق کو، کیا کیا خلش یہ نام دے دے کر
پھرائیں گے ہمیں سب پابجولاں، ہم نہ کہتے تھے

شفیق خلش

........................
غزل
شفیق خلش 

مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے
جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے

جوحال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے
تھکتے نہیں یہ کہہ کے، مِرے ہمنشیں رہے

قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے
خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے

زرخیزئ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر
زیرِ قدم خدا کرے اُن کے زمِیں رہے

عاشِق کے لب پہ حُسن کی تعریف میں وہی
ہو گفتگوئے ناز، جو عرشِ برِیں رہے

مرہونِ مِنّت اُن سبھی احباب کا ہُوں، جو
ہو مُعترِف سُخن کے مِرے نکتہ چیں رہے

ہے بادشاہت اُن کی ابھی تک اُسی طرح
اِس دِل پہ، گو نظر میں ہماری نہیں رہے

بُھولیں گے ہم اُنھیں نہ سرُور اُن کے حُسن کا
عمرِخضر وہ دُوری سے ہم پر حَسِیں رہے

طاری ہیں فرقتوں میں وہی قرب کے مزے
صد شُکر وہ خیال سے دِل کے قرِیں رہے

خواہش رہی، کبھی نظر آئیں تو وہ خلش
دِل کی انگشتری میں جو مثلِ نگِیں رہے

شفیق خلش
​ 
.......................
غزل
شفیق خلش


مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو

لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو

نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو

بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے پیار نے پھر سے سجا دِیا مجھ کو

خلِش پہ صبر کا عنصر تھا غالب آنے کو
کِھلے گُلاب نے چہرہ دِکھا دِیا مجھ کو

شفیق خلش
..............
miree hi zindagi le ker bhula diya mujh ko
ye kaise piyaar ka tum ne sila diya mujh ko

liya hai dil hii faqat, haafza bhi le laitay
tumhaari yaad ne phir se rula diya mujh ko

na koi shauq na armaan koi seene meN
ye gham ki aag ne kaisa bujha diya mujh ko

bahaar-e-no meN na'ay gham ki aamad aamad hai
tumhaare piyaar ne phir se saja diya mujh ko

khalish pe sabr ka unsar tha ghalib aanay ko
khilay gulaab ne chehra dikha diya mujh ko

Shafiq Khalish
*****************

بغداد


دُکھ ہیں کہ موجزن ہیں دلِ داغدار میں
مصرُوف پھر بھی ہیں ہَمہ تن روزگار میں

یہ آگ کی تپش، یہ دُھواں اور سیلِ خُوں
گولے برس رہے دمادم دیار میں

بغداد جل رہا ہے مگر سو رہے ہیں ہم
آتے ہیں نام ذہن میں کیا کیا شُمار میں

ہر پُھول سرخ ہے سرِ شاخِ شجر یہاں
ٹُوٹا ہے ایک حشر ہی اب کے بہار میں

کچھ زور پر ہیں اور بھی بازوئے دُشمناں
کچھ رحم کی کمی بھی ہے پروردگار میں

کہتے ہو تم کہ لاؤگے پھر سے یہاں بہار !
کتنے گلوں کا ہوئے گا خُوں اُس بہار میں

شفیق خلش
١٩٩١ء

....................
غزل
شفیق خلش

جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا
کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا

دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں
کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا

کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !
دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا

ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے
کُچھ عجب رختِ سفر ہے تِرے شیدائی کا

آنکھ اوجھل جو ہُوا دِل میں رہُوں گا کب تک
ذکر کیا خاک اب ہوگا تِرے سودائی کا

رات آنے کو ہے، رہتی ہے یہی دِل کو خلِش
دِن جو ڈھلنے کو ہے اب تیرے تمنّائی کا

شفیق خلش

............................................

غزل
شفیق خلش
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو

اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ انعام بھی تو ہو

دُشنام گو لبوں پہ خلش نام بھی تو ہو
عاشق ہو تم تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو

پتّھر برس رہے ہوں کہ، ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے کا پیغام بھی تو ہو

کرلُوں گا طے میں عِشق کی پُر پیچ رہگُزر
اُس پار منتظر وہ خوش اندام بھی تو ہو

گردن زنی پہ میری تھا قاتل کا عذر یہ
کچھ ساتھ حُکم کے تِرے اِلزام بھی تو ہو

میخانے جائیں کیوں بھلا پینےکو پھرخلش
گھر میں مگر وہ ساقیِ گلفام بھی تو ہو



ﺷﻔﯿﻖ ﺧﻠﺶ
 .................

 
yuN zindagi meN hum se koi kaam bhi to ho
maaiL ba ishq jis se gul andaam bhi to ho

un tak safar ka mere ab anjaam bhi to ho
kuch tag-o-do ye baa'is-e-in'aam bhi to ho

dushnaam-go laboN pe, khalish naam bhi to ho
aashiq ho tum to shehr meN badnaam bhi to ho

patthar ba'ras rahe hoN keh, ho moat muntazir
un ka , gaLi meN aane ka paighaam bhi too ho

kerlooN ga tay meN ishq ki pur-paich rehguzar
us paar muntazir woh khushandaam bhi to ho

gerden zani pe meri tha qaatil ko uzr ye
kuch saath hukm ke tire ilzaam bhi to ho

me-khaane jaaeN kiyuN bhala peene ko phir Khalish
ghar meN magar woh saaqi-e-gulfaam bhi to ho

  
  Shafiq Khalish

..................................
..................

غزل
 شفیق خلِش

گردشِ وقت میں کچھ بھی نہ عجب بات ہُوئی
پو پھٹے پر جو نہیں دُور مِری رات ہُوئی

طبع پل کو نہیں مائل بہ خرافات ہُوئی
گو کہ دلچسپ اِسے کب نہ نئی بات ہُوئی

پاس رہتے ہُوئے یُوں ترکِ مُلاقات ہُوئی
ایک مُدّت سے کہاں ہم سے کوئی بات ہُوئی

سب ہی پُوچھیں کہ، بسرخوش تو تِرے سات ہُوئی
کیا کہیں عمر کہ بس صرفِ شِکایات ہُوئی

زندگی میری یُوں منسُوبِ حکایات ہُوئی
کوئی دِیوانہ نظر آیا مِری بات ہُوئی

روز پتّھر کے لئے تیری گلی آ جائے
کتنی تکلیف طلب دیکھ مِری ذات ہُوئی

ناشناسائیِ اُلفت تھی، کوئی غم تو نہ تھا !
دردِ دِل پیار و محبّت کی جو سوغات ہُوئی

دل کے بہلانے کا جب سوچا تِری یادوں سے !
چند لمحوں میں، مِری آنکھوں سے برسات ہُوئی

سدِّباب اُن سے غمِ دِل ہو خَلِش کیوں مُمکن !
جن کو اوروں کی ہر اِک بات خرافات ہُوئی

شفیق خلِش
واشنگٹن ڈی سی ،یو ایس اے
..................
gerdish-e-waqt meN kuch bhi na ajab baat huii
po phaTay per jo nahiN door miree raat huii

tab'a pal ko nahiN maail ba kharafaat huii
go keh dilchasp isay kab na na naii baat huii

paas rehtay hu'ay yuN terk-e-mulaqaat huii
aik muddat se kahaaN hum se koi baat huii

sab hii poocheN keh basar khush to tiray saath huii
kya kaheN umr keh bas serf-e-shikaayaat huii

zindagi yuN miri mansoob-e-hikayaat huii
koi deewaana nazar aaya miree baat huii

roaz paththar ke liye terii gali aa jaa'ay
kitni takleef talab daikh miree zaat huii

naa shinaasaai-e-ulfat thi, koi gham to na tha
dard-e-dil piyaar-o-muhabbat ki jo saughaat huii

dil kay behlaanay ka jab socha tiree yaadoN se
chand lamhoN men, miree aaNkhoN se bersaat huii

sadd-e-baab un say gham-e-dil ho Khalish kiyuN mumkin
jin ko aoroaN ki her ik baat kharafaat huii

Shafiq Khalish
Washington, DC USA


 *********
........................


کیا کہتے بَھلا آپ سے !

 شفیق خلش

کیا کہتے بَھلا آپ سے، کیا آپ بھی سُنتے
یہ دُکھ ہیں نہیں ساز کہ سر آپ بھی دُھنتے

دُنیا کی نظر میں تو رہا ڈھونگ، تماشا
تانے مِری بپتا کی ذرا آپ بھی بُنتے

جو شورِ غمِ ہجر سماعت میں ہے میری
اے کاش مِری طرح اُسے آپ بھی سُنتے

احساس تو کُچھ ہوتا مِرے کرب و الم
جو میرے غمِ دِل کی نَوا آپ بھی سُنتے

ایذائیں مِرے شہر نے کیا کیا نہ چُنی ہیں
دُکھ ایک نیا جاں کو مِری آپ بھی چُنتے

ہوتا نہ ہمَیں درد یُوں بربادئِ دِل کا
کچھ روز اگر غم کے ذرا سہل بھی کٹتے

کیوں ٹُوٹ پڑی ساری مُصیبت، خلش یکجا
کیا تھا بُرا کُچھ روز جو خدشوں میں بھی کٹتے

شفیق خلش
..................

kya kehtay bhala aapp se, kya aap bhi suntay
yeh dukh haiN nahiN saaz, kehsar aap bhi dhuntay

duniya ki nazar meN to raha DhoNg, tamaasha
taanay miree bipta ke zara aap bhi buntay

jo shor-e-gham-e-hijr sama'at meN hai merii
aye kaash! miree tarha usay aap bhi suntay

ehsaas to kuch hota miray karb-o-alam ka
jo meray gham dil kii nawa aap bhi suntay

eezaaeN miray shehr ne kya kya na chuni haiN
dukh aik naya jaaN ko miree aap bhi chuntay

hota na hamaiN dard yuN berbaadi-e-dil ka
kuch roaz agar gham ke zara sehl bhi kaTtay

kiyuN TooT paRi saari museebat, khalish yakja
kya tha bura kuch roaz jo khadshoN meN bhi Taltay

Shafiq Khalish
...............................
غزل
شفیق خلش

 ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ

ہوتا ہے تِرے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ

دل خود میں کسی طَور پنپنے نہیں دیتا
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ

گُزری ہے بڑی عمر اِسی حال میں ناصح
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا تہیّہ

ہر شخص کئے بیٹھا ہے میری ہی مُصَمَّم
شیرازۂ ہستی کے بکھرنے کا تہیّہ

ہلکان ہوئے جاتے ہو کیوں چا رہ گرو تم
ہے زیست کا اُن سے ہی سنورنے کا تہیّہ

تاویل نئی، یا وہی بے وجہ کے خدشے
قائم رہے کب اُن کا نہ ڈرنے کا تہیّہ

نالاں کریں احباب کو کب میرے ارادے
بس دل میں تِرے، میرا اُترنے کا تہیّہ

چاہوں کہ تِرے عشق میں ڈوبا رہُوں ایسا
تا عمر نہ ہو جس سے اُبھرنے کا تہیّہ

حاصل رہی جس راہ خلش دید کی راحت
اب روز وہیں سے ہے گُزرنے کا تہیّہ

شفیق خلش
..................

ho dil meN agar piyaar na kerne ka tahaiya
behtar nahiN is se keh ho merne ka tahaiya

hota hai tire wasl ke wade pe mauakh'khar
wabasta tire furq se merne ka tahiya

dik khud meN kisi taur panapne nahiN deta
kuch haT ke kabhi ishq se kerne ka tahaiya

guzri hai baRi umr isi haal meN naaseh
kaamil na mira hoga sudharne ka tahaiya

her shakhs kiye baitha hai meri hii musammam
sheeraza-e-hasti ke bikharne ka tahaiya

halkaan huiye jaate ho kiyuN charah garo tum
hai zeest ka un se hi saNwerne ka tahaiyah

taaweel naii, ya wahi be-wajh ke khadshe
qaaim rahe kab un ka na Derne ka tahaiya

naalaaN kareN ehbaab ko, kab mere iraade
bas dil meN tire mere uterne ka tahaiya

chahooN keh tire ishq meN dooba rahooN aisa
taa umr na ho ji se ubharne ka tahaiya

haasil rahi jis raah Khalish deed ki raahat
ab roaz waheeN se hai guzerne ka tahaiya

Shafiq Khalish
***************

شفیق خلش
پیار

ہمارا پیار نہ دِل سے کبھی بُھلا دینا
ہمیشہ جینے کا تم اِس سے حوصلہ دینا

بھٹک پڑوں یا کبھی راستہ نظر میں نہ ہو !
ستارہ بن کے مجھے راستہ دِکھا دینا

دیے تمام ہی یادوں کے ضُوفشاں کرکے
ہو تیرگی کبھی راہوں پہ تو مِٹا دینا

تم اپنے پیار کے روشن خوشی کے لمحوں سے
غموں سے بُجھتے چراغوں کو پھر جَلا دینا

خِزاں گزیدہ کبھی راستے ٹھہر جائیں
بہار بن کے وہی راستے سجا دینا

ہمیشہ پیار کی کلّیوں کو ُسوچ کر، کہ ہمیں
خلش رہے نہ کوئی چُوم کر کِھلا دینا

ہماری پیار سے مخمُور زندگی کو، خلش !
کوئی نہ کام بجز اُن کو ہی دُعا دینا

شفیق خلش
.................
PIYAR

hamara piyar na dil se kbhi bhula dena
hamesha jeenay ka tum is se hosla dena

bhaTak paRoN, ya kbhi raasta nazar meN na ho
sitaara ban ke mujhe raasta dikha dena

diye tamaam hee yaadoN ke zoofishaaN ker ke
ho teeragi kbhi rahoN pe to miTa dena

tum apne piyaar ke roshan khushi ke lamhoN se
ghamon se bujhtay charaghoN ko phir jaladena

khizaaN gazeedah kabhi raastay Thehr jaaeN
bhaar ban ke wahi raastay saja dena

hamesha piyaar ki kaliyoN ko soch ker, keh hameN
khalish rahe na koi choom ker khila dena

hamaari piyaar se makhmoor zindagi ko Khalish
koi na kaam ba'juz un ko hi dua dena

Shafiq Khalish
*******************


مُلکِ خُدا داد

کب پَس و پیش ہے کرنے میں ہمَیں کام خراب
دِل ہمارا نہ ہو مائل کہ ہو کچھ کارِ صواب

مال و زر ایک طرف، جان بھی لے لیتے ہیں
ڈر کہاں ہم میں، کہ دینا ہے خُدا کو تو جواب

خاک، منزل ہو معیّن بھی وہاں خیرکی جا !
قتل کرنے کی ڈگر ٹھہری جہاں راہِ ثواب

نفرتیں روز جہاں بُغض و عقائد سے بڑھیں
کیسے نازل نہ ہو اُس مُلک پہ الله کا عذاب

یوں ہُوئی مُلکِ خُدا داد کی حالت ہے خلش !
عالمِ مرگ میں جیسے بہ جوانی و شباب

شفیق خلش
...................
MULK-E-KHUDA'DAAD

kab pas-o-paish hai kerne meN hameN kaam kharaab
dil hamaara na ho maail keh ho kaar-e-sawab

maal-o-zar aik taraf, jaan bhi lay liatay haiN
Der kahaaN hum meN, keh daina hai khuda ko to jawaab

khaak manzil ho mauiyan bhi wahaaN khair kii ja
qatl kernay kii dagar Thehri jahaaN raah-e-savaab

nafrateN roaz jahaaN bughz-o-aqaaid se baRheN
kkaisay naazil na ho us mulk pe Allah ka azaab

yuN huii mulk-e-khuda daad kii haalat hai Khalish
aalam-e-merg meN jaise ba'jawaani-o-shabaab

Shafiq Khalish
*****************
غزل

شفیق خلش

جان و دِل ہجرمیں کُچھ کم نہیں بےجان رہے
لڑ کر اِک دردِ مُسلسل سے پریشان رہے

سوچ کر اور طبیعت میں یہ ہیجان رہے !
کیوں یُوں درپیش طلاطُم رہے، طوُفان رہے

بُت کی چاہت میں اگر ہم نہ مُسلمان رہے
رب سے بخشش کی بھی کیا کُچھ نہیں امکان رہے

مگراب دل میں کہاں میرے وہ ارمان رہے
ضُعف سے لگتا ہے کُچھ روز کے مہمان رہے

زندگی کی مِری تخفِیف کا سامان رہے
لمحے یادوں کے تِری، باعثِ تاوان رہے

میں رہا، اور مِری زیست کی تنہائی کو
تیرے ایفا نہ کئے وعدہ و پیمان رہے

غم جسے اپنا سُنائیں کوئی ایسا بھی نہیں !
اُن کی چاہت میں خلش سب ہی سے انجان رہے

شفیق خلش
........................

jan-o-dil hijr meN kuch kam nahin be-jaan rahe
laR ker ik dard-e-musalsal se pareshaan rahe

soach ker aur tabee'at meN ye hejaan rahe
kiyuN? yuN derpaish talatum rahe, toofaan rahe

but ki chaahat meN agar hum na musalmaan rahe
rab se bakhshish ki bhi kya kya kuch nahiN imkaan rahe

magar ab dil meN kahaaN mere woh armaan rahe
zaauf se lagta hai kuch roaz ke mehmaan rahe

zindagi kii miri takhfeef ka saamaan rahe
lamhe yaadoN ke tiree baa'is-e-taawaan rahe

maiN raha, aur meri zeest ki tanhaaii ko
tere iefa na kee'ay waada-o-paimaan rahe

gham jise apna sunaaeN koi aisa bhi nahiN
un ki chaahat meN Khalish sab hi se anjaan rahe

Shafiq Khalish
**************

......................................
غزل

شفیق خلش
 جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے

ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے

تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے

لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال اِسے پَل کو بھی جُدا نہ کرے

خلش بنے ہیں سبھی زخم لاعلاج ایسے !
کہ جس پہ کچھ بھی اثر اب دوا، دُعا نہ کرے

شفیق خلش
...............

juda jo yaad se apni mujhe zara na kare
malool meri tarah ho kabhi khuda na kare

hum un ke husn ke kab mautarif nahiN, laikin
ghuroor, yuN bhi kisi ko kabhi khuda na kare

tab un kii yaad se dil khoon chaand kerDaale
kabhi jo kaam ye mehki huii hawa na kare

lagaya yuN gham-e-furqat ne haath seene se
koi khayaal isay pal ko bhi juda na kare

khalish bane haiN sabhi zakhm laa'ilaaj aisay
keh jis peh kuch bhi asar ab dawa, dua na kare

Shafiq Khalish*****************
غزل
شفیق خلش

چراغِ دل تو ہو روشن، رسد لہُو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزو ہی سہی '

کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجستجو ہی سہی

یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں
وہ گل مِلے ںہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی

عجیب بات ہے حاصل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے در پہ پڑے ہیں وہ سُرخ رُو ہی سہی

ہم اُس کےطرزِعمل سے ہُوئے نہ یوں عاجز
کہ جان جاں تو ہے اپنا، وہ تُندخُو ہی سہی

خَلِش یہ دل نہ ہو مائِل کسی بھی مہوش پر
مُشابہت میں ہو اُس کی وہ ہُوبَہُو ہی سہی

شفیق خلش
..................
Chiraagh dil to ho roshan rasad lahoo hi sahi
nahiN wisal ma'yassar to aarzo hi sahi

koi to kaam ho aisa keh zindagi ho haseeN
nahiN jo piyaar muqadar, to justujoo hi sahi

yahi khayaal li'ay hum chaman meN jate haiN
woh gul mile na mile, us ke raNg-o-boo hi sahi

ajeeb baat hai haasil wisaal hai na firaaq
jo tere der pe paRe haiN woh surkh roo hi sahi

hum us ke terz-e-amal se hu'ay na yuN aajiz
keh jan-e-jaN to hai apna, wo tuNd khoo hi sahi

Khalish ye dil na ho maa'il kisi bhi mehwish per
musha'bahat meN ho us ki woh hoo ba'hoo hi sahi

shafiq Khalish 

 ......................... 
 غزل

شفیق خلش 

پھر وہی گونج ہے باتوں کی بیاں سے باہر
پھر وہی تیغ ہے نظروں میں، مَیاں سے باہر

کیسا یہ درد سمایا ہے جگر میں میرے !
خود پہ کُھلتا نہیں، اُن کے بھی گُماں سے باہر

کبھی باہر تھی بیاں سے، تو تھی اُلفت اُن کی
اُن کی رنجش بھی ابھی ہے تو بیاں سے باہر

کاش ہوتے نہ جو اپنے، تو نِکلتا شاید !
لاوہ اندر سے جو نِکلا نہ زباں سے باہر

جاں کو محبُوب ہُوا درد، مِری جاں سوچے
اب کہاں جائے گا ، ہوگا جو یہاں سے باہر

پہرے دہشت کے خلش اور کہیں موت کے ہیں !
گھر سے نکلے بھی بھلا کوئی کہاں سے باہر

شفیق خلش
......................

phir wahii gooNj hai baatoN ki bayaaN se baaher
phir wahii taigh hai nazroN meN mayaaN se baaher

kaisa ye dard samaaya hai jigar meN mere
khud peh khulta nahiN, un ke bhi gumaaN se baaher

kbhi baaher thi bayaaN se to thi ulfat un kii
un ki ranjish bhi abhi hai to bayaaN se baaher

kaash hote na jo apne, to nikaltaa shaayad
laawah ander se jo niklaa na zubaaN se baaher

jaaN ko mehboob huwa dard, miri jaaN soche
ab kahaaN jaa'ay ga, hoga jo yahaN se baaher

pehre dehshat ke Khalish, aur kaheeN moat ke haiN
ghar se nikle bhi bhala koi kahaN se baaher

shafiq Khalish
  .......................
غزل
شفیق خلش

اُس حُسن کے پیکر کو کچھ پیار بھی آجائے
ہونٹوں پہ محبّت کا اِقرار بھی آجائے

لبریز ہو چاہت سے پیمانۂ دِل اُس کا
ہونٹوں سے چَھلک کر کچھ اِظہار بھی آجائے

رُت آئی ہے برکھا کی، ہیں پُھول کِھلے دِل میں
کیا خُوب ہو ایسے میں دِلدار بھی آ جائے

کیا کیا نہ کِیا ہم نے، پُوری نہ ہُوئی کوئی
خواہش ، کہ کسی شب وہ ضُوبار بھی آجائے

چُپ ہُوں ، کہ نہ ہُوں نالاں وہ میرے تواتر سے
ایسا نہ ہو لہجے میں دُھتکار بھی آجائے

اتے ہیں سبھی سُننے محفِل میں خلِش کو تو !
جس کے لئے لکھے ہیں اشعار بھی آجائے

شفیق خلش
...................
us husn ke paikar ko kuch piyaar bhi aa jaa'ay
hoNtoN pe muhabbat ka iqraar bhi aa jaa'ay

labraiz ho chaahat se paimaana-e-dil us ka
hoNtoN se chhalak ker kuch paighaam bhi aa jaa'ay

rut aaii hai berkhaa kii, haiN phool khile dil meN
kiya khoob ho aise meN dildaar bi aa jaa'ay

kya kya na kiya hum ne, poori na huii koi
khuwaahish, keh kisi shab woh zoo'baar bhi aa jaa''ay

chup hooN keh na hoaN naalaaN woh mere tawatur se
aisaa na ho lehje meN dhhutkaar bhi aa jaa'ay

aate haiN sabhi sunne mehfil meN khalish ko to
jis ke li'ay likhe haiN ashaar bhi aa jaa'ay

Shafiq Khalish
 ................................
غزل 
شفیق خلش
  ﻏﻢِ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﺐ ﻗﻠْﺐ ﮨﻤﮑﻨﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ
ﺧُﺪﺍ ﮐﺎ ﺷُﮑﺮ، ﺿﻤﯿﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻏﺪﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ

ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮨﺠﺮﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺫﺭﺍ ﻗﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ
ﻏﻢِ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ

ﮨﺮﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻤﯽ ﺑﯿﺸﯽ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺍِﺧﺘﺼﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ

ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﻏﯿﺮ ﭘﮧ ﺭﮐﮭﯿﮟ، ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮨﺎ ﻣﻤﮑﻦ
ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺟﺐ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ

ﯾﮧ ﺧﻮﻑ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭُﺳﻮﺍ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺩُﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﺷﺮﯾﮏِ ﮔﺮﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ، ﺭﺍﺯﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﺭﺍﺩﮦ ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﮨﮯ ﭘُﺨﺘﮧ نہ اُن سے مِلنے ﮐﺎ
رہے یقین مگر اُن کو انتظار نہیں

پلٹ کے جائیں نہ پھر سے گلی میں اُن کی خلش
اب ایسا دل پہ مُکمل بھی اختیار نہیں


 شفیق خلش
 ..........................
gham-e-hayaat se kab qalb ham'kinaar nahiN
khuda ka shukr, zameer apna daaghdaar nahiN

tumhare hijr meN dil ko zara qaraar nahiN
gham-e-jahaaN kii tarah tum se bhi faraar nahiN

her aik cheez meN hoti hai kuch kami baishii
bas aik gham meN tumhare hi ikhtisaar nahiN

bharosa ghair pe rakheN, kahaaN raha mumkin
khud apne ghar meN kisi ka jab aitibaar nahiN

ye khoaf kiyuN hai keh ruswa raho ge duniya meN
shareek-e-girya haiN ye log, raaz'daar nahiN

iradah yuN to hai pukhta, na un se milne ka
rahe yaqeen magar un ko intizaar nahiN

palaT ke jaaeN na phir se gali meN unki, Khalish
ab aisa dil pe mukamal bhi ikhtiyaar nahiN

Shafiq Khalish

  ..................
غزل
شفیق خلش

کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آجائیں
پھر آ کے چلے جائیں ، اِک بار تو آ جائیں

ہے وقت یہ رُخصت کا، بخشش کا، تلافی کا
سمجھیں نہ جو، گر اِس کو بیکار تو آجائیں

اِک دِید کی خواہش پہ اٹکا ہے یہ دَم میرا
کم کرنا ہو میرا کچھ آزار تو آ جائیں

جاں دینے کو راضی ہُوں، اے پیکِ اجل لیکن
کچھ دیر تو رُک جاؤ، سرکار تو آجائیں

جائیں نہ خلش لے کر ہم سُوئے عدم حسرت
مقصُود ہو اُن کو بھی دِیدار، تو آجائیں

شفیق خلش
....................

kerte haiN agar mujh se kuch piyaar to aa jaaeN
phir aa ke chale jaaeN, ik baar to aa jaaeN

hai waqt ueh rukhsat ka, bakhshish ka, talaafi ka
samjheN na jo, gar is ko baikaar to aa jaaeN

ik deed kii khuwaahish pe aTka hai ye dam mera
kam kerna ho mera kuch aazaar to aa jaaeN

jaaN dene ko raazi hooN aaye paik-e-ajal, laikin
kuch dair to ruk jaa'o, serkaar to aa jaaeN

jaaeN na Khalish le kar hum soo'ay adam hasrat
maqsood un ko bhi deedaar to aa jaaeN

Shafiq Khalish

**************


شفیق خلش

ہزار سی بھی لوُں دامن، سِیا نہیں لگتا
جنُوں سے عِشق میں سودا کِیا نہیں لگتا

اِک اِمتحان سے گُزرا ہُوں، کیوں نہیں سمجھیں
یونہی نہیں میں، ہر اِک کو جِیا نہیں لگتا

وہ اِطمینان سے، یُوں ہیں کہ میں کسی کو بھی اب !
خود اپنے آپ پہ تہمت لِیا نہیں لگتا

وقوعِ وصل پہ کہتے ہیں سب، کرُوں نہ یقیں
کبھی وہ مجھ کو بھی وعدہ کِیا نہیں لگتا

اِنہی اندھیروں میں شاید ہے اِختمامِ حیات
ہو اِک بھی راہ میں روشن دِیا، نہیں لگتا

کب اِن کے بِیچ مجھے روز و شب نہیں بھاری !
کب آسمان و زمیں آسیا نہیں لگتا

تمام وقت ہی مدہوش، جس کے عشق میں ہو
بس اِک اُسی کو خلش، تُو پیا نہیں لگتا

شفیق خلش
..................

Hazaar see bhi looN daaman, siya nahiN lagta
junooN se ishq meN sauda kiya nahiN lagta

ik imtihaan se guzra hooN, kiyuN nahiN samjheN
yuNhii nahiN meN her ik ko jiya nahiN lagta

woh itminaan se, yuN haiN keh maiN kisi ko bhi ab
khud apne aap peh tuhmat liya nahiN lagta

waqoo'a wasl peh kehte haiN sab karooN na yaqeeN
kabhi woh mujh ko bhi waadah kiya nahiN lagta

inhii aNdheroN meN shayad hai ikhtamaam-e-hayaat
ho ik bhi raah meN roshan diya nahiN lagta

kab in ke beech mujhe roaz-o-shab nahiN bhaarii
kab aasmaan-o-zameeN aasiya nahiN lagta

tamaam waqt hi madhosh jis ke ishq meN ho
bas ik usi ko Khalish too piya nahiN lagta

Shafiq Khalish
****************


شفیق خلش

کیا تم سے کہیں چُپ رہنے دو
جو چاہیں کہیں وہ ، کہنے دو

دِیوانہ سمجھ کر رہنے دو !
اے چارہ گرو دُکھ سہنے دو

دن بھر تو رہے آنسو روکے
خلوت میں لڑی تو بہنے دو

سُونی سی لگے دُنیا دل کی
کچھ اور غموں کے گہنے دو

ہاں درد کے سارے زیور وہ
اب تک جو نہیں ہیں پہنے دو

دِیوانگی اُن کی ثابت ہے
کہتے ہیں خلش جو کہنے دو

شفیق خلش
...................

kya tum se kaheN, chup rehne do
jo chaaheN kaheN woh, kehne do

deewan samjh ker rehne do
aye charah'garo dukh sehne do

din bhar to rahe aaNsoo roke
khelwat meN laRi to behne do

sooni see lage duniya dil kii
kuch aur ghamoN ke gehne do

haaN dard ke saare zewar woh
ab tak jo nahiN haiN pehne do

deewaangi un kii saabit hai
kehte haiN Khalish jo kehne do

Shafiq Khalish
***************



خزانہ

بارشیں یاد دِلائیں وہ زمانہ میرا
شِیٹ کی دھار کے پانی میں نہانا میرا

سُوکھے پتوں کی طرح تھی نہ کہانی میری
آئی مجھ پرکہ ابھی تھی نہ جوانی میری

دل کہ محرومئ ثروت پہ بھی نا شاد نہ تھا
لب پہ خوشیوں کے تھے نغمے، کبھی فریاد نہ تھا

پُھول ہی پُھول نظر آتے تھے ویرانے میں
موجزن رنگِ بہاراں سا تھا دیوانے میں

کوئی مذہب کا تھا جھگڑا، نہ عقیدے کا خیال
دل میں تب بُغض تھے لوگوں کے، نہ فرقے کا سوال

اِک عجب پیار و محبّت کا سماں رہتا تھا
ہرعقیدے سے، عقیدت کا سماں رہتا تھا

ڈور کر گھر میں کسی کے بھی چلے جاتے تھے
کوئی آنگن ہو بڑا، اُس میں نہا آتے تھے

گھر کی دیوار سے پیوست وہ لانبا کھمبا
دوست بارش میں نہ بدبخت وہ لانبا کھمبا

لہر بجلی کی جو دیوار میں دوڑاتا تھا
جس کو چُھونے سے عجب مجھ کو مزہ آتا تھا

رفتہ رفتہ مِرے احساس بدلتے ہی گئے
سنگ حالات کے ہر حال میں چلتے ہی گئے

پھر کچھ ایسا ہُوا، سب چھوڑ کے آئے اپنا
بیٹھے پردیس میں لگتا ہے ابھی جو سپنا

عمرِ رفتہ کی طرح بھیگنا ساون کا گیا
ساتھ بچپن کے، مزہ گھر کے وہ آنگن کا گیا

نہ وہ بچپن، نہ وہ آنگن، نہ زمانہ میرا
سب گئے، یادیں رہیں صرف خزانہ میرا

شفیق خلش
...................

KHAZANA

barisheN yaad dilaaeN woh zamana mera
sheeT kii dhhaar ke paani meN nahaana mera

sookhe pattoN kii tarah thi na kahaani meri
aaii mujh per keh abhi thi na jawaani meri

dil keh mehroomi-e-serwat pe bhi naa'shaad na tha
lab pe khushiyoN ke the naghme kabhi feryaad na tha

phool hi phool nazar aate they weerane meN
moajzan rang-e-bahaaraaN sa tha deewane meN

koi mazhab ka tha jhahgRa, na aqeede ka khayaal
dil meN tab bughz they logoN ke, na firqe ka sawaal

ik ajab piyaar-o-muhabbat ka samaaN reta tha
her aqeede se aqeedat ka samaaN rehta tha

doaR ker ghar meN kisi ke bhi chale jaate they
koi aaNgan ho baRa us meN nahaa aate the

ghar ki deewaar se pewast woh laaNbaa khamba
dost baarish meN na bad'bakht wo laaNbaa khamba

lehr bijlii ki jo deewaar meN doRaata tha
jis ko chhoone se ajab mujh ko maza aata tha

rafta raftah mire ehsaas badalte hii ga'ay
sang haalaat ke her haal meN chalte hi ga'ay

umr-e-rafta kii tarah bheegna saawan ka gaya
saath bachpan ke, maza ghar ke woh aaNgan ka gaya

na woh bachpan, na woh aaNgan, na zamana mera
sab ga'ay, yaadeN raheeN sirf khazaana mera

Shafiq Khalish

*****************




شفیق خلش

نہ دوست بن کے مِلے وہ ، نہ دشمنوں کی طرح
جُدا یہ ُدکھ بھی، مِلے اور سب دُکھوں کی طرح

یُوں اجنبی سی مُصیبت کبھی پڑی تو نہ تھی
سحر کی آس نہ جس میں وہ ظلمتوں کی طرح

نہ دل میں کام کی ہمّت، نہ اوج کی خواہش !
کٹے وہ حوصلے سارے مِرے پروں کی طرح

ستارے توڑ کے لانے کا کیا کہوں میں اُسے
زمیں کے کام بھی جس کو ہیں زحمتوں کی طرح

کروں میں شُکر ادا ربِ ذُوالجلال کا یُوں
کہ تجھ سے پیار بھی بخشش ہے رحمتوں کی طرح

کبھی ہُوا نہیں نادم میں تیری نسبت سے
اگرچہ باہمی قصّے تھے تہمتوں کی طرح

خلش رہی تو بس اِس بات کی خلش، کہ رہا !
میں اُس کے ہوتے بھی دُنیا میں بیکسوں کی طرح

شفیق خلش
....................

na dost ban ke mile woh, na dushmanoN ki tarah
juda ye dukh bhi, mile aur sab dukhoN kitarah

yuN ajmnabi sii museebat kabhi paRi to na thi
sahar ki aas na jis meN woh zulmatoN ki tarah

na dil meN kaam ki himmat, na auoj ki khuwaahish
kaTe woh hosle saare mire paroN ki tarah

sitaare toaR ke laa'ne ka kya kahooN meN usey
zameeN ke kaam bhi jis ko haiN zehmatoN ki tarah

karooN meN shukr ada rab-e-zuljalaal ka yuN
keh tujh se piyaar bhi bakhshish hai rehmatoN ki tarah

kabhi huwa nahiN naadem meN teri nisbat se
agerche baahami qisse they tuhmatoN ki tarah

khalish rahi, to bas is baat ki Khalish, keh raha
maiN us ke hote bhi duniya meN be'kasoN ki tarah

Shafiq Khalish

***************





شفیق خلش

نہیں جو عِشق میں رُتبہ امین رکھتا تھا
میں اپنا دِل تک اُسی کا رہین رکھتا تھا

رہی جو فکر تو نادان دوست ہی سے مجھے
وگرنہ دُشمنِ جاں تک ذہین رکھتا تھا

خیال جتنا بھی اُونچا لئے پھرا ، لیکن
میں اپنے پاؤں کے نیچے زمین رکھتا تھا

خُدا کا شُکر کہ عاجز کِیا نہ دل نے کبھی
میں اِس کو دوست ہمیشہ حَسِین رکھتا تھا

کسی بھی شہر، کسی مُلک میں جہاں بھی گیا
جِلو میں اپنی میں عُمدہ ترین رکھتا تھا

نہیں یُوں یاد ہر اِک کو، کہ میں حَسِیں تھا، مگر
ہمیشہ ساتھ میں زہرہ جبین رکھتا تھا

چُنا اگر تو اِک ایسا ہی زندگی کو خلش !
کمر گُلوں میں جو سب سے مہین رکھتا تھا

شفیق خلش
................

nahiN jo ishq meN rutbah ameen rakhta tha
maiN apna dil tak usi ka raheen rakhta tha

rahi jo fikr to naadaan dost hi se mujhe
wagerna dushman-e-jaaN tak zaheen rakhta tha

khayaal jitna bhi ooNcha liye phira, laikin
maiN apne paaoN ke neche zameen rakhta tha

khuda ka shukr, keh aajiz kiya na dil ne kabhi
maiN is ko dost hamaisha haseen rakhta tha

kisi bhi shehr, kisi mulk maiN jahaaN bhi gaya
jiLo meN apni maiN umdah tareen rakhta tha

nahiN yun yaad her ik ko, keh maiN haseeN tha, magar
hamaisha shaath maiN zuhrah'jabeen rakhta tha

chunaa agar to ik aisa hii zindagi ko Khalish
kamar guloN meN jo sab se maheeN rakhta tha

Shafiq Khalish
***********




شفیق خلش

کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم
جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم

اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون ، کہاں پر ہم ہیں
جانے جاتے نہیں اب تیرے فقط نام سے ہم

اب تو تجدیدِ تعلّق کا بھی اِمکاں نہ رہا
ہو گئےآ کے یہاں ایسے ہی بے دام سے ہم

اب کہاں دِل میں وہ طاقت، کہ یہ کچھ اور سہے !
اب تو ہیں شہر میں تیرے بڑے بدنام سے ہم

وہ گلی یاد ہے مجنوں کو، تِرے پاگل کو
جانے جاتے تھے جہاں، ایسے کئی نام سے ہم

کہہ کے اب تم کو خلش کون پُکارے گا یہاں
ہو گئے اپنا وطن چھوڑ کے بے نام سے ہم

شفیق خلش
..................

kon kehta hai? hain be'kal gham-o-aalaam se hum
hai tasauwer jo tumhaara to haiN aaraam se hum

ab na ye fikr, keh haiN kon, kahaan per hum haiN
jaane jaate nahiN ab tere faqat naam se hum

ab to tajdeed-e-taalluq ka bhi imkaaN na raha
ho ga'ay aa ke yahaaN aise hi be'daam se hum

ab kahaan dil meN woh taaqat keh yeh kuch aur sa'hey
ab to haiN shehr meN tere baRe badnaam se hum

woh gali yaad hai majnooN ko, tire paagal ko
jaane jate the jahaaN aise kaii naam se hum

keh ke ab tum ko khalish kon pukaare ga yahaN
ho'ga'ay apna watan chhoaR ke be naam se hum

Shafiq Khalish

****************

شفیق خلش

جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہوںگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے

ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے

ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے

پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں ہونگیں
دل کے بہلانے کو کیا کچھ نہیں ساماں ہونگے

جو نظر اُٹّھے گی اُس کی، وہ بحالِ افسوس !
یُوں مِرے دِیدہ و دِل اشک بَداماں ہونگے

آج مِل جائیں، ہر اِک غم کا اِزالہ کرلیں !
کل کا کیا ٹھیک ہے، کل اور ہی عنواں ہونگے

اُن کو اندازہ نہیں میری محبّت کا خلش !
میں گیا ہاتھ سے اُن کے تو پشیماں ہونگے

شفیق خلش
...................

jitne kum mujh se mulawqaat ke imkaaN hoNge
utna utna hi, woh milne ko pareshaaN hoNge

haiN faqat hum hi nahiN deed ke taalib us ke
ghar se niklaiN jo kabhi jaan ke hairaaN noNge

her qadam us ko dila'ay gamir hi ehsaas
us ki raahoN bichhe yuN mire armaaN hoNge

phir bahaar aaii gii aur phir miri yaadeN honNgeeN
dil ke behlaane ko kya kuch nahiN samaaN hoNge

jo nazar uThe gii us ke, woh ba'haal-e-afsos
yuN mire deedah-o-dil ashk ba'damaaN hoNge

aaj mil jaaeN, her ik gham ka izaalah kerleN
kal ka kya Theek hai, kal aur hii unwaaN hoNge

un ko andaza nahiN meri muhabbat ka Khalish
maiN gaya haath se un ke , to pashemaaN hoNge

Shafiq Khalish

****************

شفیق خلش

چھوڑا نہیں ہے وقت نے کرنے کو میرے کچھ
باقی بھی اب رہا نہیں ڈرنے کو میرے کچھ

مٹّی کا جسم سُوکھ کے پتّھر کا ہو گیا
آنکھوں میں نم ہے اور نہ کرنے کو میرے کچھ

اِک جُنبشِ حیات کو ترسا ہُوا ہُوں میں
آہیں بھی اب رہیں نہیں بھرنے کو میرے کچھ

ہو فکر بھی تو کیا بُتِ جامد کی اب مجھے
حرکت بھی اب بچی نہیں کرنے کو میرے کچھ

ہو کیوں نہ انتظار مجھے موت کا خلش !
اب اور غم رہے نہیں مرنے کو میرے کچھ

شفیق خلش
..................

chhoRa nahiN hai waqt ne kerne ko mere kuch
baaqi bhi ab raha nahin derne ko mere kuch

maTTii ka jism sookh ke paththar ka ho gaya
aaNkhoN meN nam hai aur na kerne ko mere kuch

ik juNmbish-e-hayaat ko tersa huwa hooN meN
aaheN bhi ab raheeN nahiN bherne ko mere kuch

ho fikr bhi to kya but-e-jaamed ki ab mujhe
herkat bhi ab bachi nahiN kerne ko mere kuch

ho kiyuN na intizaar mujhe moat ka Khalish
ab aur gham nahiN rahe merne ko mere kuch

Shafiq Khalish
************

عید

میل سب صاف ہی ہوجائیں گے آخر دِل کے
یہ مِرا دِل نیا ہو جائے گا تجھ سے مِل کے

رنجشیں ختم ہماری یونہی ہو جائیں گی
دِل کی دھڑکن میں کہیں دُور یہ کھو جائیں گی

کوئی افسوس نہ ہوگا کسی گُزرے کل کا
لُطف کچھ اور ہی آئے گا اِس آتے پَل کا

سینہ سے سینہ مِلے آئے وہ اُمّید کا دِن
بس وہی دن ہے جسے کہتے ہیں ہم عید کا دن

شفیق خلش
فروری ١٩٨٩
.................

EID
mail sab saaf hi ho jaaeN ge aakhir dil ke
ye mira dil naya ho ja'ay ga tujh se mil ke

ranjishen kahtm hamari yuNhi ho jaaeN gii
dil ki dhaRkan meN kaheeN door ye kho jaieN gii

koi afsoas na hoga kisi guzre pal ka
lutf kuch aur hi aa'ay ga is aate pal ka

seena se seena mile, aa'ay woh ummeed ka din
bas wahi din hai jise kehte haiNhum Eid ka din

Shafiq Khalish
************

شفیق خلش

کچھ سفیدی نے سحر کی رنگ بھی پکڑا نہ تھا
رات کی اُس تِیرَگی کو بھی ابھی جکڑا نہ تھا

خواب میں تھے سب مکینِ وادئ جنّت نظیر
رات کے سب خواب تھے دن کا کوئی دُکھڑا نہ تھا

سحری کرکے پانی پی کے سو گئے تھے روزہ دار
وہ بھی حاصل جن کو روٹی کا کوئی ٹکڑا نہ تھا

حُسن فِطرت میں کہ تھے پالے ہُوئے چہرے وہاں
ہو نہ جس پہ رشک ایسا کوئی بھی مُکھڑا نہ تھا

بھیج کر بچوں کو مکتب پل کو جو لیٹے ہی تھے
آگیا یوں زلزلہ، کیا تھا کہ جو اُکھڑا نہ تھا

ہر طرف لاشیں تھیں یا پھر گونجتی آہ و بکا
کون تھا اپنے لہو میں خود ہی جو لِتھڑا نہ تھا

اپنوں کو کیسے نکالیں یوں دبی دیوار سے
سوچ میں تھے غرق سب کوئی مگر تگڑا نہ تھا

کوئی گھرایسا نہ تھا جس کے پیاروں کو وہاں
موت کے بے رحم ہاتھوں نے خلش جکڑا نہ تھا

یونہی کتنے مرنے والوں کو لِٹایا قبر میں
ڈھانپنے کو لاش کے دو گز یہاں کپڑا نہ تھا

سوچتا ہُوں کیوں مِلی اِن روزہ داروں کو سزا
تیرے آگے اپنا ماتھا کیا کبھی رگڑا نہ تھا

یہ نمازی اُس کے ہی سب نام لیوا تھے خلش
دین کا اور کفر کا، ایسا کوئی جھگڑا نہ تھا

شفیق خلش
٨ اکتوبر، ٢٠٠٥ ( ماہِ رمضاں ) کشمیر زلزلہ
********************



شفیق خلش

مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی
میرے دِل میں سما رہا ہی کوئی

ہے تِری طرح روز راہوں میں
مجھ سے تجھ کو چُھڑا رہا ہے کوئی

پھر ہُوئے ہیں قدم یہ من من کے
پاس اپنے بُلا رہا ہے کوئی

نِکلُوں ہر راہ سے اُسی کی طرف
راستے وہ بتا رہا ہے کوئی

کیا نِکل جاؤں عہدِ ماضی سے !
یادِ بچپن دِلا رہا ہے کوئی

پھر سے اُلفت نہیں ہے آساں کُچھ
بُھولے نغمے سُنا رہا ہے کوئی

دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں
میرے نزدیک آرہا ہے کوئی

وہ جو کہتا ہے بُھول جاؤں خلش !
وقت اُس پر کڑا رہا ہے کوئی ؟

شفیق خلش
.............

mujh se aaNkheN laRa raha hai koi
mere dil meN sama raha hai koi

hai tiri tarha roaz raahoN meN
mujh se tujh ko chhuRa raha hai koi

phir hu'ay haiN qadam ye man man ke
paas apne bula raha hai koi

niklooN her raah se usi ki taraf
raaste woh bata raha hai koi

kiya nikal jaooN ehd-e-maazi se
yaad-e-bachpan dila raha hai koi

phir se ulfat nahiN hai aasaN kuch
bhoole naghme sunaa raha hai koi

dhaRkaneN taiz hoti jaati haiN
mere nazdeek aa raha hai koi

wo jo kehta hai bhool jaooN ouse
waqt us per kaRa raha hai koi

Shafiq Khalish
***********


شفیق خلش

بہت سے لوگ تھے باتیں جہاں ہماری تھیں
تمھارے وصف تھے رُسوائیاں ہماری تھیں

نہیں تھا کوئی بھی، دیتا جو ساتھ محفل میں
تمھاری یاد تھی، تنہائیاں ہماری تھیں

عجب تماشا تھا، ہرآنکھ کا وہ مرکز تھا
وجود اُس کا تھا، پرچھائیاں ہماری تھیں

تباہ ہو نہ سکے، یہ کمال تھا اپنا
تمھارے خواب تھے بیداریاں ہماری تھیں

خلش! گو قہقہے پھیلے ہُوئے تھے محفل میں
مگر وہاں بھی طلبگاریاں ہماری تھیں

شفیق خلش
............
buhat se loag the baateN jahaaN hamari theeN
tumhaare wasf the, ruswaaiyaaN hamari theeN

nahiN tha koi bhi daita jo saath mehfil meN
tumhaari yaad thi, tanhaaiyaaN hamari theeN

ajab tamaasha tha her aaNkh ka woh merkaz tha
wajood us ka tha, perchhaiyaaN hamari theeN

tabaah ho na sake, ye kamaal tha apna
tumhare khuwaab the baidariyaN hamari theeN

Khalish! go qehqahe phaile hu'ay the mehfil meN
magar wahaaN bhi talabgaariyaaN hamari theeN

Shafiq Khalish
************

 

شفیق خلش

مناظر حَسِیں ہیں جو راہوں میں میری
تمہیں ڈھونڈتے ہیں وہ بانہوں میں میری

اِنہیں کیا خبر مجھ میں رَچ سے گئے ہو
بچھڑ کر بھی مجھ سے، ہو آہوں میں میری

عجب بیخُودی آپ ہی آپ چھائے
تِرا نام آئے جو آہوں میں میری

ہر اِک سُو ہے رونق خیالوں سے تیرے
ابھی بھی مہک تیری بانہوں میں میری

مِرے ساتھ بھی ہو، ہو مِرے ہمقدم بھی !
نہیں صرف ہو تم نِگاہوں میں میری

شفیق خلش
................

manaazir haseeN haiN jo raahoN meN meri
tumheN DhooNDte haiN woh baaNhoN meN meri

inheN kya khabar mujh meN rach se ga'ay ho
bichhaR ker bhi mujh se, ho aahoN meN meri

ajab be'khudi aap hii aap chhaa'ay
tira naam aa'ay jo aahoN meN meri

her ik soo hai ronaq khayaaloN se tere
abhi bhi mehak teri baaNhoN meN meri

mire saath bhi ho, ho mire hu'qadam bhi
nahin sirf ho tum nigaahoN meN meri

Shafiq Khalish

*************



شفیق خلش

دی خبر جب بھی اُنھیں اپنے وہاں آنے کی
راہیں مسدُود ہُوئیں میرے وہاں جانے کی

اور کُچھ پانے کی دِل کو نہیں خواہش کوئی
نِکلے بس راہ کوئی میرے وہاں جانے کی

وجہ کیا خاک بتائیں تمھیں کھُل کر اِس کی
کوئی تدبِیر چلی ہی نہیں دِیوانے کی

میری قسمت میں کہاں یار سے جاکر مِلنا
کوشِشیں خاک ہُوئیں ساری وہاں جانے کی

ایسا کھویا ہُوں جہانِ غمِ ہستی میں خلش
کوئی صُورت ہی نہیں اپنا نشاں پانے کی

راہ گر دیکھتی جنّت ہے تو دیکھے، کہ خلش !
ہم کو جلدی نہیں دُنیا سے وہاں جانے کی

شفیق خلش
.................
di khabar jab bhi unheN apne wahaaN aane ki
raaheN masdood huieN mere wahaaN jane ki

aur kuch paane ki dil ko nahiN khuwahish koi
nikle bus raah koi mere wahaaN jane ki

wajh kya khaak bataieN tumheN khul ker is ki
koi tadbeer chali hi nahin deewane ki

meri qismat meN kahaaN yaar se jaa ker milna
koshisheN khaak huieN saari wahaaN jane ki

aisa khoyaa hooN jhaan-e-gham-e-hasti meN Khalish
koi soorat hi nahiN apna nishaaN pane ki

raah ger daikhti jannat ahi to daikhe keh Khalish
hum ko jaldi nahiN duniya se wahaaN jane ki

Shafiq Khalish
****************


شفیق خلش

وہ جو رُخ پہ رنگِ شباب تھا
تِرا حُسن تھا کہ گلاب تھا

نہ تھا یوں مگر مجھے یوں لگا
وہی جاں کا میری عذاب تھا

کہ شکستِ دل کا سبب بھی تو
وہی عشقِ خانہ خراب تھا

اُفقِ نظر پہ ہے آج تک
وہ جو چاند زیرِ نقاب تھا

مِری زندگی تھی کہ دُھوپ تھی
تِرا حُسن مثلِ سحاب تھا

بنا تیرے لمحہ بھی ایک ایک
مِری ضیقِ جاں کا حساب تھا

نہ تھا کچھ بھی میری نظر میں تب
تُو ہی ایک لُبّ لُباب تھا

تُو مِلا جو مجھ سے تو یُوں مِلا
نہیں مانع کوئی حجاب تھا

تو بچھڑ گیا تو لگا ہے یُوں
کہ وہ سب ہی مثلِ حباب تھا

کبھی ہو سکے گا نہ مجھ سے حل
وہی ایک ایسا نصاب تھا

شفیق خلش
.................
woh jo rukh pe rang-e-shabaab tha
tira husn tha keh gulaab tha

na tha yuN magar mujhe yuN laga
wahi jaaN ka meri azaab tha

keh shikast-e-dil ka sabab bhi to
wahi ishq-e-khana kharaab tha

ufaq-e-nazar pe hai aaj tak
woh jo chaand zair-e-naqaab tha

miri zindagi thi keh dhoop thi
tira husn thaa kh sahaab tha

bina tere lamha bhi aik aik
miri zeeq-e-jaaN ka hisaab tha

na tha kuch bhi meri nazar meN tab
too hi aik lab-e-lubaab tha

too miila jo mujh se to yuN mila
nahiN maana koi hijaab tha

too bichhaR gaya to laga hai yuN
keh woh sab hi misl-e-habaab tha

kabhi ho sake ga na mujh se hal
wahi aik aisaa nisaab tha

Shafiq Khalish

***************

 ..............................
غزل
شفیق خلش

جوش طلب میں حد سے گُزر جائیں کیا کریں
آتا نہیں وہ، ہم ہی اُدھر جائیں کیا کریں

مِلنے کی آس میں ہیں سمیٹےہوئے وجُود
ایسا نہ ہو کہ ہم ہی بِکھر جائیں کیا کریں

ہر سمت ہر گھڑی وہی یادوں کے سلسلے
الله! ہم سے سے لوگ کدھر جائیں کیا کریں

اور ایک رات اُس کی گلی میں گُزار دی
اب کون آنے والا ہے، گھر جائیں کیا کریں

جاتی نہیں دِل سے جو اب ہجر کی خلش
رو رو کے اُن کی یاد میں مر جائیں کیا کریں

شفیق خلش
...................

josh-e-talab meN had se guzar jaaeN kya kareN
aa'ta nahiN woh, hum hi udhar jaaeN ya kareN

milne kii aas meN haiN samaitay hu'ay wujood
aisa na ho keh hum hi bikhar jaaeN kya kareN

her simt, her ghaRi wahi yaadoN ke silsilay
Allah! hum se loag kidhar jaaeN kya kareN

aur aik raat us ki gali meN guzaar di
ab kon aane waala hai, ghar jaaeN kya kareN

jaati nahiN hai dil se jo ab hijr kii khalish
ro ro ke un kii yaad meN mer jaaeN kya kareN

Shafiq Khalish
.........................

 غزل

شفیق خلش
(دو غزلہ)

چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھا نہ تھا
اک نظر میری نظر کو اِنقلاب اچھا نہ تھا

اِس تغیّر سے دلِ خانہ خراب اچھا نہ تھا
تیرا غیروں کی طرح مجھ سے حجاب اچھا نہ تھا

اِس سے گو مائل تھا دل تجھ پر خراب اچھا نہ تھا
کب نشہ آنکھوں کا تیری اے شراب اچھا نہ تھا

بیقراری اور بھی بڑھ کر ہُوئی مجھ پر سَوا
اِک نظر، آنا نظر میری گلاب اچھا نہ تھا

ذہن و دل پر اِختیار اب، میرا کچھ باقی نہیں
تجھ سے پیار اِس قدر میرا بے حساب اچھا نہ تھا

کل کا کہہ کر آج ہی واپس ہُوئے ہیں یُوں خلش
دل پہ تیرے ہجر میں پڑتا عذاب اچھا نہ تھا

آرزُوتیری نہیں کرتا، تو کیا کرتا خلش
پورے عالم میں کوئی تجھ سا شباب اچھا نہ تھا

جی کا میرے وسوسوں سے پیچ و تاب اچھا نہ تھا
غیر کی باتوں پہ دل ہونا کباب اچھا نہ تھا

گفتگو میں ظاہر اُس کا اِضطراب اچھا نہ تھا
اس نتیجے جو مِلا اجر و صواب اچھا نہ تھا

تھی شکایت سب ہی کو کہتے نہیں ہم دل کی بات
جو کہا سُن کر مِلا اُن سے جواب اچھا نہ تھا

آرزُو اُس کی نہیں کرتا، تو کیا کرتا خلش
پورے عالم میں کوئی اُس سا جناب اچھا نہ تھا

گو سہارے ہی گُزاری لیکن احساس اب ہُوا
زندگی بھر دیکھتے رہنا بھی خواب اچھّا نہ تھا

ہرعمل اور ہر سِتم اُس کا رَوا ہو، پھر بھی یُوں !
اِک بھری محفل میں مجھ سے اِجتناب اچھا نہ تھا

بھاڑ میں جائے خلش اُس سے نہیں کچھ واسطہ!
اُس کا لوگوں کو یہی دینا جواب اچھا نہ تھا

شفیق خلش


************

غزل
شفیق خلش

تِنکوں کا ڈُوبتوں کو سہارا بتائیں کیا
پیشِ نظر وہ روز نظارہ بتائیں کیا ؟

جی کیوں اُٹھا ہے ہم سے کسی کا بتائیں کیا
پُوچھو نہ بار بار خُدارا بتائیں کیا

تڑپا کے رکھ دِیا ہمَیں دِیدار کے لئے
کیوں کر لیا کسی نے کِنارا بتائیں کیا

روئے بہت ہیں باغ کے جُھولوں کو دیکھ کر
یاد آیا کیسا کیسا نظارا بتائیں کیا

دیکھا نہ پھر پَلٹ کے چُھڑا کر گیا جو ہاتھ
کِس کِس کے واسطوں سے پُکارا بتائیں کیا

کہنے کو تو بچھڑ کے بھی زندہ رہے، مگر
تم بن یہ وقت کیسے گُزارا بتائیں کیا

بُھولے نہیں کسی بھی ادا کو تِری، مگر
پہلے پَہل وہ تیرا اشارہ بتائیں کیا

سب کوششیں بُھلانے کی بےسُود ہی رہِیں
ہے دِل پہ اب بھی اُن کا اِجارہ بتائیں کیا

سچ ہے نہ ٹھہرا وقت کسی کے لئے کبھی
کِس کشمکش میں ہم نے گُزارا بتائیں کیا

مُمکن نہیں کہ دِل سے خلش دُور ہو خلش
کیا کیا لِیا نہ ہم نے سہارا بتائیں کیا

شفیق خلش
..................

tinkoN ko DoobtoN ka sahaara bataeN kya
paish-e-nazar woh roaz nazara bataeN kya

ji kiyuN uTha hai hum se kisi ka bataeN kya
poochho na baar baar khudara bataeN kya

taRpa ke rakh diya hameN deedaar ke liye
kiyuN ker liya kisi ne kinara bataeN kya

ro'ay bahut hain baagh ke jhooloN ko daikh ker
yaad aaya kaisa kaisa nazara bataeN kya

daikha na phir palaT ke, chhuRa ker gaya jo haath
kis kis ke wastoN se pukaara bataeN kya

kehne ko to bichhaR ke bhi zindah rahe, magar
tum bin ye waqt kaise guzaara bataeN kya

bhoole nahiN kisi bhi ada ko tiree magar
pehle pahal woh tera ishara bataeN kya

sab koshisheN bhulaane ki be-sood hi raheeN
hai dil pe ab bhi un ka ijaarah bataeN kya

sach hai na thehra waqt kisi ke liye kabhi
kis kashmaksh meN hum ne guzaara btaeN kya

mumkin nhain keh dil se khalish door ho khalish
kiya kiya liya na hum ne sahaara bataeN kya

Shafiq Khalish
************

غزل

شفیق خلش

اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا
یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا

میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز
پُھولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا

اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا

کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک خوابِ خُوب رُوئے زمانہ نہیں گیا

مَدّھم سی ہو تی جاتی ہے آنکھوں کی روشنی
لیکن مِرا وہ خواب سجانا نہیں گیا

گرچہ الگ ہیں رنگ خِزاں اور بہار کے !
پھر بھی تو اِن رُتوں کا ستانا نہیں گیا

اِک کیفیّت سُرور کی ہے قُربِ حُسن سے
اب تک وہ عاشقی کا زمانہ نہیں گیا

کم وَلوَلے ہوں کیسے، کہ ہر دم ابھی اُسے
پیشِ نظر خیال میں پانا نہیں گیا

جو نقش دِل پہ تھے، وہ تو سارے اُتر گئے
نظروں سے اُس کا دِل میں سمانا نہیں گیا

یادوں سے مَحو ہوگئے ماضی کے سب خیال
اِک عکس اُس حَسِیں کا سُہانا نہیں گیا

چُھوٹے ہیں زندگی کے سبھی کام، پر خلش !
کُوچے میں اُس کے اب بھی وہ جانا نہیں گیا

شفیق خلش
..................

is dil ka khoob roo'oN pe aana nahiN gaya
ye shoaq ji se ab bhi puraana nahiN gaya

maiN daikhta hooN ab bhi guloN ko chaman meN roaz
phooloN se apne jee ko lubhaana nahiN gaya

ab bhi talab hai meri nigahoN ko husn kii
jeene ko zindagi se bahaana nahiN gaya

kya kya na kuch guzarta gaya zindagi ke saath
ik khuwaab-e-khoob roo'ay zamana nahiN gaya

maddham see hoti jati hai aaNkhoN ki roshni
laikin mira woh khuwaab sajana nahiN gaya

gerche alag haiN raNg khizaaN aur bahaar ke
phir bhi to in rutoN ka satana nahiN gaya

ik kaifiyat suroor kii hai qurb-e-husn se
ab tak woh aashqi ka zamaana nahiN gaya

kam walwalle hoaN kaise keh her dam abhi use
paish-e-nazar khayaal meN paana nahiN gaya

jo naqsh dil pe thay, woh to saare utar ga'ay
nazroN se us ka dil meN samana nahiN gaya

yaadoN se mehv ho ga'ay maazi ke sab khayaal
ik aks us haseeN ka suhaana nahiN gaya

chhoote haiN zindagi ke sabhi kaam per Khalish
kooche meN us ke ab bhi woh jaana nahiN gaya

Shafiq Khalish

...........................
غزل
شفیق خلش

مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کتنا

دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کتنا

کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کتنا

گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا حال میں شامِل تِرا کرَم کتنا

گِلہ کہاں یہ ذرا جاننے کی خواہش ہے !
لکھا نصیب میں باقی رہا سِتم کتنا

کبھی تو بَن کے حقیقت بھی سامنے آ جا
تصوّرات میں پُوجُوں تجھے صنم کتنا

ہر ایک بار حوالوں سے جانتے ہیں تمھیں
اب اور اِس سے زیادہ مِلوگے کم کتنا

بنا دِیا مجھے حسرت و یاس کی تصوِیر
میں کرتا ہجر کی رُوداد بھی رقم کتنا

بَدستِ دِل ہی تھا مجبُور، سو چلا آیا
لرز رہا ہے گلی میں ہر اِک قدم کتنا

شکستِ دِل سے کم عاجز تھے ہم ، کہ اُس پہ خلش
اُٹھا رہے ہیں بُھلانے میں اُس کو غم کتنا

شفیق خلش
....................

miri hayaat pe haq tujh ko hai sanam kitna
hai dastaras meN khushi kitni aur alam kitna

dhuwaaN dhuwaaN sa mire jism meN hai dam kitna
karoN ga pairahan ashkoN se apne nam kitna

kabhi to rhm bhi aa'ay machalte armaaN per
khayaal o khaab meN rakhkhon tujhe sanam kitna

guloo'khalaasi miri ho bhi paa'ay gii keh nahiN
rahe gaa haal meN shaamil tira karam kitna

gila kahaaN ye zara jaanne ki khauhish hai
likha naseeb meN baqi raha sitam kitna

kabhi to ban ke haqeeqat bhi saamne aa ja
tasuwaraat meN poojooN tujhe sanam kitna

her aik baar hawaloN se jaante haiN tumheN
ab aur is se ziyadah milo ge kam kitna

banadiya mujhe hasrat o yaas kii tasveer
maiN kerta hijr kii roodaad bhi raqam kitna

ba'dast-e-dil hii tha majboor, so chala aa'ya
laraz raha hai gali meN her ik qadam kitna

shikast-e-dil kam aajiz thay hum, keh us pe Khalish
uTha rahe haiN bhulaane meN us ko gham kitana

Shafiq Khalish
************
...................

غزل

شفیق خلش

مجھ سے کیوں بدگُمان ہے پیارے
تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے

ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے
دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے

میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں
مہرباں آسمان ہے پیارے

کب اشارہ ہو سب اُلٹنے کا
مُنتظر پاسبان ہے پیارے

کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی
اِک عجب داستان ہے پیارے

چور ہوکر ہمارے نیتا ہیں
ایسے جادُو بیان ہیں پیارے

اِک خلش دل کی پُوچھتے ہو خلش
کیا نہ دِل پر نِشان ہے پیارے

شفیق خلش
..................

mujh se kiyuN bad'gumaan hai piyare
tujh pe sadqe ye jaan hai piyare

halki lerzish se Toot jaata hai
dil woh kachcha makaan hai piyare

maiN hi kiyuN morid-e-nishaanh yahaaN
mehrbaaN aasmaan hai piyare

kab ishaarah ho sab ulaTne ka
muntazir paasbaan hai piyare

kiyuN na jamhooriyat yahaaN phalti
ik ajab daastaan hai piyare

choar ho ker hamaare neta haiN
aise jadoo bayaan haiN piyare

ik khalish dil kii poochte ho Khalish
kya na dil per nishaan hai piyare
  

Shafiq Khalish

>>>>>>>>>>>

لچھّی نہیں پہ !

ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں میرے دِئے ہُوئے
کرتی تھی یاد سات وہ پھیرے لِئے ہُوئے

کیوں چُوڑیاں نہیں پہ ہمیشہ یہی کہا
پہنُوں گی اپنے ہاتھوں میں تیرے دِئے ہُوئے

دِل روز روز مِلنے پہ ڈرتا بہت تھا تب
کیا کیا نہ خوف رہتے تھے گھیرے لِئے ہُوئے

شاخیں فسُردہ یُوں کہ پرندے تھے جو یہاں
گم ہوگئے کہیں وہ، بسیرے لِئے ہُوئے

ہر سمت دُھول دُھول ہے، کُچھ بھی نہیں سِوا
بادل گھنیرے چھائے اندھیرے لِئے ہُوئے

لچّھی نہیں پہ ، رات کہ ہٹتی نہیں مِری
سورج تو آئے روز سویرے لِئے ہُوئے

شفیق خلش
..............

haathon ko apne haathoN meN mere diye hu'ay
kerti thi yaad saat woh phaire liye hu'ay

kiyuN choRiyaaN nahiN pe hamaisha hai kaha
pehnooN gii apne haathoN men tere diye hu'ay

dil roaz roaz milne pe Derta bahut tha tab
kya kya na khauf rehte thay ghaire liye hua'y

shaakheN fasurdah yuN keh parinde thay jo yahaaN
gum ho ga'ay kaheeN woh basere liye hua'ay

her simt dhool dhool hai kuch bhi nahiN siwa
badal ghanere chha'ay aNdhere liye hu'ay

Lachchi nahiN peh raat keh kaTti nahiN miree
sooraj to aa'ay roaz sawere liye hu'ay

Shafiq Khalish
************
...............................
غزل
شفیق خلش
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں

رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں

کشادہ دل ہیں سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں

نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں آن بیٹھے ہیں

کہاں ہم ایسے، غزالوں کے رَم سے ہوں عاجز
اُتارنے کو ذرا سی تکان بیٹھے ہیں

خُدا کرے، وہ حقیقت میں ہم کو ہوں حاصل
جنہیں ہم اپنا تصوّر میں مان بیٹھے ہیں

نہیں یہ غم، کہ گئیں ساری راحتیں دل کی
ہم اُن کو اپنی خوشی کرکے دان بیٹھے ہیں

کچھ اورپاس نہیں وارنے کوجاں کے سِوا
لُٹا کے اُن پہ ہی دونوں جہان بیٹھے ہیں

سِتَم سے اُن کےخلش، زندگی لبِ دم ہے
مگر وہ ہیں کہ ، ابھی اور ٹھان بیٹھے ہیں

شفیق خلش
.............
daba'aye daantoN meN apni zubaan baithe haiN
hum un se kuch na kahaiN ge ye thaan baithe haiN

ra'hay ghizaal meN baaNdhe machaan baithe haiN
hum aazmaane ko qismat hee aan baithe haiN

kusha'dah dil haiN sitam se rahe haiN kab kha'if
karaiN woh zulm bhi hum par jo thaan baithe haiN

nahiN hai un se hamari koi sha'naasaii
gali meN shoaq-e-tajalli meN aan baithe haiN

kahaN hum ayse ghizaaloN ke ram se hoaN aajiz
utaarne ko zara see ta'kaan baithe haiN
khuda kare woh haqeeqat meN hum ko hoN haasil
jinheN hum apna tassuwur meN maan baithe haiN

nahiN ye gham ke gaeeN saari rahataiN dil kee
hum un ko apni khushi kerke daan baithe haiN

kuch aur paas nahiN waarne ko jaaN ke siwa
lu'Ta ke un peh hi donoN jahaan baithe haiN

sitam se un ke khalish, zindagii lab-e-dum hai
magar woh haiN ki, abhi aur thaan baithe haiN

shafiq Khalish


[​IMG]
شفیق خلش
غزل

آنکھوں کی طرح میری چمکتے رہو تارو
تم دل کی طرح دِید کی اُمید نہ ہارو

ہے ہجر کا موسم یہ مِرے دل کے سہارو
قائم رہے کچھ وصل کی اُمّید تو پیارو

غالب رہے ضو باری بچھی تِیرہ شبی پر
چہرے نہ لگیں یاس کی تصویر سی تارو

اے چاند ، اُسے میری تسلّی ہی کی خاطر
آجائے وہ تم میں نظر ایسا تو پُکارو

صدقے میں بَھلی ذات کے پھر ہجر میں اُس کی
اے ماہِ منّور وہی صُورت تو اُبھارو

حسرت میں نہ مرجاؤں مِرے ذوقِ تخیّل
لے آؤ مقابل اُسے ، قالب میں اُتارو

قدموں تلے آجائے گی منزل ، جو خلش تم
لو سر سے کوئی کام ، نہ دیوار پہ مارو



شفیق خلش
..............
غزل
شفیق خلش

پھر خیالِ دلِ بیتاب ہی لایا ہوگا
کون آتا ہے یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

خوش خیالی ہی مِری کھینچ کے لائی ہوگی
در حقیقت تو مِرے در وہ نہ آیا ہوگا

کیا کہیں ہجرکے ایّامِ عقوبت کا تمھیں
کیا ستم دیکھ کے تنہا نہیں ڈھایا ہوگا

مُمکنہ راہ پر کچھ حسرتِ دید اُن کی لئے !
یوں بھی بیٹھے تھے کہ، اِس راہ وہ آیا ہوگا

ہو گماں شک پہ حقیقت کا نہ ہاتھ آئے جب !
ہم جسے جسم سمجھتے رہے سایا ہوگا

سوچ کر اپنے ہی مکتوب پہ رشک آتا ہے
اپنے ہونٹوں سے وہ، مِلتے ہی لگایا ہوگا

بس یہی سوچ کے ہر روز خلِش جاتے ہیں
گُل کا موسم ہے، وہ گُل باغ میں آیا ہوگا

شفیق خلش
......................

phir khayaal-e-dil-e-be'taab hi laaya hoga
kon aata hai yahaaN, koii na aaya hoga

khush khayaali hi miri khench ke laaii hogi
der-haqeeqat to, mire der woh na aaya hoga

kya kaheN hijr ke aiyaam-e-aqoobat ka tumheN
kya sitam daikh ke tanhaa nahin Dhaya hoga

mumkinah raah per kuch hasrat-e-deed un ki liye
yuN bhi baiThe the keh, is raah woh aaya hoga

ho gumaaN shak pe haqeeqat ka na haath aa'ay jab
hum jise jism samjhte rahe, saya hoga

soch ker apne hii maktoob pe rask aata hai
apne hoNtoN se woh milte hii lagaya hoga

bas yahi soch ker, her roaz khalish jaate haiN
gul ka mosam hai woh gul baagh meN aaya hoga

Shafiq Khalish

......................

[​IMG]
شفیق خلش
غزل

آئے جو وہ ، تو دل کے سب ارماں مچل گئے
بُجھتے ہُوئے چراغِ وفا پھر سے جل گئے

مِلتے توسب سے آ کے ہیں اِک ہم ہی کو مگر
مِلتی نہیں خبر وہ کب آکر نکل گئے

پیمان وعہد کیا ہُوئے، سوچوں کبھی کبھی
کیوں قربتوں کے ہوتے وہ اِتنے بدل گئے

ویراں تھی زندگی، مِری اِک دِید کے بغیر
اب ایسی زندگی سے وہ کیسے بہل گئے

وارفتگیِ شوق کا عالم نہ پُوچھیے
ہم لوگ انتظار کے سانچوں میں ڈھل گئے

ہے اشتیاق دل کو خلش جاننے کا اب
کیونکر وہ اپنی باتوں سے پہلو بدل گئے

شفیق خلش
......................................​

[​IMG]
شفیق خلش
غزل

وہ خوابِ دل نشیں مِرے ، جو مُنتشر ہُوئے
حسرت میں ڈھل کے پھر سے تِرے مُنتظر ہُوئے


راہِ خیال و فکر میں جو ساتھ ساتھ تھے
کب راہِ زندگی میں مِرے ہم سفر ہُوئے


دل کے مُعاملے وہ دِلوں تک ہی کب رہے
برکت سے رازداں کی سبھی مُشتہر ہوئے


بڑھ کر بلآخر ایک سے غم قافلہ بنا
رنج والم تھے جتنے سبھی ہمسفر ہُوئے


پُوچھو نہ تیرے ہجرمیں کاٹے ہیں کیسے سب !
کوہِ گراں سے مجھ پہ وہ شام وسحر ہُوئے


اپنے ہیں، دل میں پیار بھی رکھتے ضرورہیں
نالے مِرے اب ان پہ مگر بے اثر ہُوئے


جائیں سُنانے کِس کو اب اشعار ہم خلش
ناپَید اب نظر سے سب اہل نظر ہُوئے

شفیق خلش
​....................................

[​IMG]
شفیق خلش
لچھّی نہیں پہ !

ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں میرے دئے ہوئے
کرتی تھی یاد سات وہ پھیرے لئے ہوئے

کیوں چوڑیاں نہیں پہ ہمیشہ یہی کہا !
پہنوں گی اپنی ہاتھوں میں تیرے دئے ہوئے

دل روز روز ملنے پہ ڈرتا بہت تھا تب
کیا کیا نہ خوف رہتے تھے گھیرے لئے ہوئے

شاخیں فسردہ یوں کہ پرندے تھے جو یہاں !
گم ہوگئے کہیں وہ، بسیرے لئے ہوئے

ہر سمت دُھول دُھول ہے، کچھ بھی نہیں سِوا
خوشیاں کہاں ہَوا بھی وہ میری لئے ہوئے

لچّھی نہیں پہ ، رات کہ ہٹتی نہیں مِری
سورج تو آئے روز سویرے لئے ہوئے

شفیق خلش
​ .....................
غزل
شفیق خلش

نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے
محبت کو جیسے اثر مِل گئی ہے

سرِشام ، وہ بام پر آئے ، شاید

ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے

مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے
تھی قسمت میں جومختصرمِل گئی ہے

گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا
توسّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے

ہمہ وقت طاری جو رہتی تھی ہم پر
اب اُس تیرگی کو سحرمِل گئی ہے

دُعائیں کہاں نا رسا اب رہی ہیں
خوشی جس پہ تھی منحصرمِل گئی ہے

خلش، زندگی پر ہمیں ناز کیا کم
محبّت کو اِک خوش نظرمِل گئی ہے

شفیق خلش

.................
 
غزل
شفیق خلش

دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ

ہو مثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ

آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش اِلحان
زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ

رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
ہمسفرتم جو لِئے اپنے یہ چھب بن جاؤ

میں نے چاہا تھا سرِصُبْحِ جوانی بھی یہی
تم ہی سانسوں کی مہک، دل کی طلب بن جاؤ

کچھ تو احساس چَھٹے دل سے اندھیروں کا مِرے
زیستِ تاریک کو اِک شمعِ شب بن جاؤ

دل میں رکھتا ہُوں محبّت کا خزانہ جاناں
چھوڑکرسارا جہاں میری ہی اب بن جاؤ

ذات قربت سے ہمیشہ ہی منوّر چاہوں
کب کہا اُس سے خلش رونقِ شب بن جاؤ

شفیق خلش

 
.................................

غزل
شفیق خلش

صد شُکر ریزہ ریزہ کا خدشہ نہیں رہا
دل ضبط و اعتبار میں خستہ نہیں رہا

کیا خُوب ، رہ سکوںگا نہ تیرے بغیر پل
اوراب بچھڑ بھی جانے کا صدمہ نہیں رہا

باتوں سے تیری ذہن ہمارا بنائے پھر
ایسا اب ایک بھی کوئی نقشہ نہیں رہا

افسوس یوں نہیں ہمیں مال ومتاع کا
سوچیں ہماری جان کا صدقہ نہیں رہا

چھانی نہ جس کی خاک وفا کی تلاش میں
ایسا کوئی بھی شہر یا قصبہ نہیں رہا

پھر سے ہمارے دل میں مکیں بن کےآ رہو
ٹوٹے اب اس مکان کو رستہ نہیں رہا

جا تے ہیں اطمینان سے جانا جہاں بھی ہو
جب دل نہیں اثر میں تو رخنہ نہیں رہا

جوش و خروش عشق میں پہلا سا کب خلش
جب فیصلہ، وہ  تخت یا تختہ نہیں رہا

شفیق خلش

..................

غزلِ
شفیق خلش

آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دل کی، گو کرتے کہیں ہیں کم

دل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی، شرم سے کرتے نہیں ہیں نم

ایسا جلادیا ہمیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم

اک پل نہ ہوں گوارہ کسی طور یوں ہمیں
دل پر سوار ہو کے اُترتے نہیں ہیں غم

رکھتے ہیں سطحِ آب سے اُونچا ہم اپنا سر
ڈوبے پہ یوں نہیں، کہ اُبھرتے نہیں ہیں ہم

قبل اِس کے جاں سے جائیں، وہ آجائیں ایک بار
ہے شرط، ورنہ موت سے ڈرتے کہیں ہیں ہم

ہوگا نصیب قُرب دمِ مرگ، یار کا
کب آئی ایسی موت پہ مرتے نہیں ہیں ہم

پُہنچے ِترے خیال میں جب جب بھی عرش پر
گزُرے زماں وہیں پہ، اُترتے کہیں ہیں ہم

ذکرِ خُدا کچُھ آپ پر لازم بھی ہو خلش
ہر وقت بس صنم کا ہی، بھرتے نہیں ہیں دم

شفیق خلش


 
.............
غزل
شفیق خلش
زیست مُشکل ہے بہت غم کی مِلاوٹ کے بغیر
آ ہی جاتے ہیں کسی طور یہ آ ہٹ کے بغیر

شب رہیں جن سے شبِ وصل، لگاوٹ کے بغیر
چہرے دیکھیں ہیں کبھی اُن کے سجاوٹ کے بغیر

بے بسی رات کی چہروں سے جھلکتی ہے صبح
دن کے آلام اٹھاتے ہیں تراوٹ کے بغیر

رُوح تک جسم کے دردوں کی کسک جاتی ہے
کام دُنیا میں کوئی ہے بھی، تھکاوٹ کے بغیر

وہ، جو مجبوُریِ حالات سے بِک جاتے ہیں !
گھر پُہنچتے ہیں تو سہمے ہُوئے، آہٹ کے بغیر

اے خُدا ! مایہ و زر اُن پہ فراواں کردے
ناؤ بہتی نہیں جن کی بھی رُکاوٹ کے بغیر

اِک نظر اُن پہ بھی شفقت کی، مِرے ربِ کریم
دانہ جن کو نہ میسّر ہو بناوٹ کے بغیر

شفیق خلش
​ 

............

غزلِ
شفیق خلش

 
 خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں
کہاں وفا کی وہ دُشوارِیوں سے ڈرتے ہیں

ہر اِک سے، سر نہیں ہوتی ہے منزلِ مقصُود
بہت سے، راہِ طلب میں تڑپ کے مرتے ہیں


ڈریں ہم آگ کے دریا کے کیوں تلاطُم سے
نہیں وہ ہم ، جو نہیں ڈوب کر اُبھرتے ہیں


جنہیں نہ عشق میں حاصل ہو وصل کی راحت
وہ داستانوں کے عنوان بن نکھرتے ہیں

تمھارے ہجرکے لائے ہوئے یہ روزوشب
بجز تمھارے ہی آئے کہاں سُدھرتے ہیں

صُعُوبَتوں کے نِشاں تک تو سب مِٹا ڈالے
مُفارقت کے لگے داغ کب اُترتے ہیں

خلش جو ساتھ ہوں راتوں کو چاندنی کی طرح
وہی تو صبح کو سُورج بنے اُبھرتے ہیں
 


.............

 غزلِ
شفیق خلش

موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
   ہنس کے جینے کا اگر تھا تو بہانہ وہ تھا

اک عجب دَور جوانی کا کبھی یوں بھی رہا
میں کہانی جو زبانوں پہ فسانہ وہ تھا

اپنا کر لایا ہر اِک غم میں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا اُس کا نشانہ وہ تھا

دل عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں کہ اِسے
ایک مندر کی طرح کا ہی ٹھکانہ وہ تھا

وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چھپانا غم کا
اشک آنکھوں سے رَواں تھے، جو روانہ وہ تھا

دشمنِ جاں جو سرِدست ہے ٹھہرا میرا
سر کا سایہ کبھی میرے کبھی شانہ وہ تھا

عاشقی کا نہ مجھے ہی مگر اُن کو بھی خلش
رہ گیا یاد ہر اِک دن کہ سُہانہ وہ تھا


غزل
شفیق خلش

نہ پوچھو ہم سے کہ وہ خُرد سال کیا شے ہے
کمر کے سامنے جس کی ہلال کیا شے ہے

حَسِین چیزکوئی کیا، جمال کیا شے ہے
خدا نے اُس کو بنایا کمال، کیا شے ہے

بنایا وہ یَدِ قدرت نے خاک سے پُتلا
خجِل ہوں حُورمقابل غزال کیا شے ہے

تمہارے حُسن سے، شاید مِرے تصور کو
کبھی خبر ہی نہیں ہو زوال کیا شے ہے

بتانا چاہیں بھی تو خاک ہم بتا نہ سکیں
وہ سَرْو قد، وہ خِراماں مثال کیا شے ہے

کہَیں جو وقت کو ہرایک زخم کا مرہم
اُنھیں خبر ہی نہیں ہے خیال کیا شے ہے

بتائیں کیا، کہ بنایا ہے اُس نے کاجل سے
نظر سے دل میں اُترتا جو خال، کیا شے ہے

ہے مشتِ خاک میں جاری وہ رقصِ بے ہنگام
مقابلے میں کہ جس کے دھمال کیا شے ہے

وہی ہیں ولولے دل میں خلش اوائل کے
غموں سے عشق میں ہونا نڈھال کیا شے ہے


    شفیق خلش
............................
غزلِ
شفیق خلش

نہ بوجھ یوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ
دُکھوں کوگوشوں میں اِس کے نہ تُو سنبھال کے رکھ

ہرایک شے پہ تو قدرت نہیں ہے انساں کو
شکستِ دل کو بصورت نہ اک وبال کے رکھ

گِراں ہیں رات کے آثار، ذہن دل کے لئے
سُہانے یاد کے لمحے ذرا نکال کے رکھ

میں جانتا ہوں نہیں دسترس میں وہ میری
ہَوا مہک سے نہ اُس کی یہ دل اُچھال کے رکھ

بہل ہی جائیں گے ایّام ہجرتوں کے خَلِش
خیال و خواب اُسی حُسنِ بے مثال کے رکھ

شفیق خلش

Ghazal
na boajh yuN dil-e-muztar peh apne daal ke rakh
dukhoN ko goshoN meN iske na too saNbhaal ke rakh

har aik sh'ay peh to qudrat nahiN hai insaaN ko
shikast-e-dil ko ba-soorat na ik wabaal ke rakh

giraaN hain raat ke aasaar, zehn  dil ke liye
suhaane yaad ke lamhe zara nikaal ke rakh

meN jaanta hooN nahiN dastars meN woh meri
hawa mahek se to uski na dil uchaal ke rakh

bahel hi jaaeN ge aiyyaam hijratoN ke KHALISH
khayal-o-khuwaab usii husn-e-be'misaal ke rakh

  by shafiq khalish


غزلِ
شفیق خلش
کِس کِس ادا سے اُن سے نہ تھی بات کی جناب
بنتی اگر جو بات، تو کیا بات تھی جناب
ہو کر جُدا نہ دے ہے تکلّف مِزاج سے
اب تک وہ گفتگو میں کریں آپ، جی، جناب
بارآور آپ پر نہ ہوں کیوں کوششیں مِری
کب تک یہ بے ثمر سی رہے آشتی جناب
جاتے نہ کیسے اُن کے بُلانے پہ ہم بھلا
موضوعِ گفتگو پہ کہا عاشقی جناب
کب تھا میں اِضطراب وغمِ ہجْر آشنا
جب تک کہ آپ سے تھی فقط دوستی جناب
جانے کہاں گئی ہے، خوشی چھوڑ کر مجھے
کل تک تو ہر قدم وہ مِرے ساتھ تھی جناب
للچائے کیوں نہ جی ہر اک اچھی سی چیز پر
شامل ہے یہ سرشت میں، ہوں آدمی جناب
پُختہ یقین ہے کہ یہ جب تک جہان ہے
گونجے گی کوبہ کو یہ مِری نغمگی جناب
احساس، رنجِ مرگ پہ غالب ہے یہ خلش
زندہ اگر نہ میں تو مِری شاعری جناب 

  ...........................
غزلِ
شفیق خلش ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے
تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے

ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے
مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے

کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی
خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے

کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس میں بھی
کب خیال اُن کے ہُوئے خواب سے، پیہم نہ رہے

مِلتی کیا خاک مصیبت میں ہمیں سُرخ رُوئی
کب ہم احباب کے آزار سے بےدم نہ رہے

کیا ہو غیروں سے تغافل کے برتنے کا گِلہ
ہم سے خود اپنے بھی بیزار ذرا کم نہ رہے

فُرقِ یاراں میں خلِش ! دِل کا تڑپنا کیسا
کیا خوشی میں سبھی مانع یہی ہمدم نہ رہے

شفیق خلش

.....................
غزلِ
شفیق خلش
غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو
کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو

مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے
ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو

ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں
عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو

ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں !
بعید اِس سے، اُنھیں اعتبار ہو کہ نہ ہو

کبھی چلیں نہ پھر اِک روز اُن کے گھر کو خلش
بِنا یہ سوچے اُنھیں اِنتظار ہو کہ نہ ہو

شفیق خلش

...............................
غزلِ






































شفیق خلش
چراغِ دل تو ہو روشن، رسد لہو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزو ہی سہی '
کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجستجو ہی سہی
یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں
وہ گل مِلے ںہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی
عجیب بات ہے حاصل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے در پہ پڑے ہیں وہ سُرخ رُو ہی سہی
ہم اُس کےطرزِعمل سے ہوئے نہ یوں عاجز
کہ جان جاں تو ہے اپنا، وہ تند خُو ہی سہی
خَلِش یہ دل نہ ہو مائل کسی بھی مہوش پر
مشابہت میں ہواُس کی وہ ہُوبَہُو ہی سہی
شفیق خلش
...................................
 غزلِ
شفیق خلش

رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے
بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے

یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے
نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے

رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے
وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے

گِریں فُرقِ ہمقدم میں، سبھی جا ہی ضُعفِ دِل سے
کب اُٹھیں قدم خلِش اب کسی راہ بھی سنبھل کے

مجھے کچھ سمجھ نہ آئے کہ اچانک ایسے کیونکر
اب بدل دِیں تم نے راہیں مِری زندگی بدل کے

ہُوا نقش میرے دل پر، تِرا حُسن، تیرا چلنا
وہ طِلِسمِ جاں کے جس سے رہا دِل مِرا مچل کے

پسِ مرگ تِیرَگی کا مجھے روز سامنا ہے
کہاں دِن چڑھا دوبارہ تِرے بعد میرا ڈھل کے

کب اب اِن میں زندگی کی رہی کچھ رَمَق بھی باقی
تِرے مُنتظر ایّام اب، ہُوئے مُنتظر اجَل کے

تِری طرح بے مروّت کبھی لوٹ کر نہ آئی
تِرے آنے پر قضا جو، گئی ایک بار ٹل کے

ہے عجیب شہرِدِل بھی، کہ نہیں ہے اِس میں اِمروز
نہ ہی دن چڑھے نیا کچھ ، وہی سانحے ہیں کل کے

ہُوئے دفن ذات میں ہی خلِش اِس نگر میں آ کر
بَھلا اور کیا وہ کرتے، تِرے شہر سے نِکل کے

شفیق خلش 
...........................

غزلِ
شفیق خلش

سوچ کر یہ مجھے ملال نہیں
کون مجھ سا تباہ حال نہیں

اک تنومند ہے شجر دُکھ  کا
غم مِرا  اب  غمِ  نہال  نہیں

لوگ پوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف  افسردگی  سوال  نہیں

کچھ  بھی کہنا کہاں ہے کچھ مشکل
کچھ کہوں دل کی، یہ مجال نہیں

لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں

آ گئی موت، غم سے مر بھی چُکا
پھر بھی زندہ ہوں کیا محال نہیں

محورِ  ذہن ہو گئے ہیں مِرے
کب  رہیں  وہ  مِرا خیال نہیں

تھا یوں  پُرکیف  دید  کا  منظر
کب تخیّل میں اب دھمال نہیں

مثلِ جاناں کہوں جسے میں خلش
ایسا  ہرگز  کوئی  جمال  نہیں

  شفیق خَلِش
  ***** 
 
Ghazal
Shafiq khalish

soch ker yeh mujhe malaal nahiN
kon mujh saa tabaah haal nahiN

ik tanomand hai shajar dukh ka
gham mira ab gham-e-nihaal nahiN

loag poocheN hain naam tak us ka
sirf afsurdagi sawaal nahiN

kuch bhi kehna kahaaN hai kuch mushkil
kuch kahooN dil ki, yeh majaal nahiN

loag haNste haiN haal per jo mire
maiN bhi haNsta hooN kiya kamaal nahiN

aa gaii moat gham se mer bhi chuka
phir bhi zindah hooN kiya muhaal nahiN

mehwar-e-zehn ho ga'ay haiN mire
kab raheN woh mira khayaal nahiN

thaa yuN pur-kaif  deed ka manzar
kab takhaiyul men ab dahmaal nahiN

misl-e-jaanaaN kahooN jise maiN khalish
aisaa hergiz koii jamaal nahiN

by shafiq khalish
 
غزلِ
شفیق خلش

نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے

جو چھوڑ آئے تھے جاناں تمھارے جانے پر
وہ یاد آتے ہیں اب بھی تو بام و در میرے

نہیں ہوں جن کی مسافت میں کچُھ مِلن کے گمُاں
سُکون دیتے ہیں مجھ کو وہی سفر میرے

وہاں رہا نہ کوئی، اور یہاں کُھلا نہ کوئی
نہیں ہے گھر تو بھلا ہوں کہاں سے در میرے

رہینِ دل ہو تو ہر فکر، ہر خیال میں تم
رہے ہو تم ہی تو ہر راہ ہمسفر میرے


دَھریں وہ کان فُغاں پر، نہ اِلتجا پہ خلش
گئے دُعا کی طرح آہوں سے اثر میرے


خلش وہی تو مِری شکل سے بھی ظاہر ہیں
کہ جبر اُن کے تھے اور جبر کے اثر میرے


شفیق خلش

nahiN ho paas bhi, ho paas tum magar mere
ye aur baat thi hote jo tum agar mere

joo chhoaR aa'ay the janaaN tumhare jane per
woh yaad aate haiN ab to baam-o-der mere

nahiN hoN jin ki musaafet meN kuch milan ke gumaaN
sukoon daite haiN mujh ko wahi safar mere

wahaaN raha na koi, aur yahaaN khula na koi
nahiN hai ghar to bhala hoN kahaaN se der mere

raheen-e-dil ho to her fikr, her khayaal meN tum
rahe ho tum hii to her raah humsafar mere

dahreN wo kaan fughaaN per, na iltija pe Khalish
ga'ay dua kii tarah aahoN se asar mere

   khalish wahi to miri shakl se bhi zaahir haIN

keh jabr un ke the aur jabr ke asar mere

sahfiq Khalish
​.................................
غزلِ
شفیق خلش
 
حوصلے جب نہ کچھ جواں سے رہے
روزوشب ہم پہ اِمتِحاں سے رہے
اشک آنکھوں سے یُوں رواں سے رہے
لوگ نظروں میں سب دُھواں سے رہے
ہم یہ کہنا تو اِس زباں سے رہے
کیا تعلّق فِلاں فِلاں سے رہے
منزِلِ عشْق کِس طرح مِلتی
جب نہ ہم میرِکارواں سے رہے
موسَمِ دِل نہ اِس بَرَس بدلا
ہم بہاروں میں بھی خِزاں سے رہے
بُھولنا اُن کا کچھ نہ تھا آساں
پیش صدمے جو ناگہاں سے رہے
تیری اُلفت کے سُرخ رُو لمْحے
میری راتوں کی کہکشاں سے رہے
میری اِس کشتئِ محبّت میں
آپ ہی تھے جو بادباں سے رہے
ہم جِنہیں یاد کرکے روتے تھے
وہ خَلِش، دِل میں ہیں کہاں سے رہے 
....................
غزلِ
شفیق خلش

کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے
ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے

یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے
وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے

بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو
کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے

اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس کو
کہیں بُھول ہی نہ جاؤں غمِ روزگار کرتے

سدا کوستے ہی رہتے ہم اُس آہِ بے اثر کو
جو ہمیشہ، مثلِ ماضی، نہ وہ ہم سے پیار کرتے

ہو سبیل کچھ تو یا رب، مِلے شرفِ کامرانی
ہُوئی عمر اِک دُعا میں مجھے یار یار کرتے

بھلا کیا جواب دیتے ربِ حُسنِ دوجہاں کو
جو پرِی وشوں کا اُٹھتے فقط انتظار کرتے

یہ خلِش عذابِ جاں سی نہ دلِ خلِش میں رہتی
وہ بھی ایفا اپنا وعدہ، اگر ایک بار کرتے

شفیق خلِش
.................







































غزلِ
شفیق خلش
 ​​
دوستی جب بھی کچھ بتاں سے رہے
دشمنی میری اک جہاں سے رہے
بحر میں تشنگی کے ڈوب گیا
لمحہ بھر بھی جو وہ نہاں سے رہے
روز تہمت کا سامنا ہو جہاں
کوئی خوش بھی وہاں کہاں سے رہے
کرب چہرے نے کردئے ظاہر
زخم دل کے اگر نہاں سے رہے
جن کی فرقت نے کردیا بوڑھا
وہ تصّور میں کیا جواں سے رہے
دل میں خواہش تھی وصل کی لیکن
سامنے ان کے اس بیاں سے رہے
اُن حسینوں کی نا رَسی توبہ
میری نظروں سے جو نہاں سے رہے
اک عمل بھی نہیں تھا پوشیدہ
ساری دنیا پہ ہم عیاں سے رہے
رچ گئے مجھ میں وہ خلش بن کر
جو تخیّل میں جانِ جاں سے رہے
............
 ​
غزلِ
شفیق خلش
عزم سارے ہی رائیگاں سے رہے
خاک سر پرجو سائباں سے رہے

خاک میں مِل گئے وہ سب آمر
اس زمیں پر جو آسماں سے رہے

بس یہ خواہش ہے دل میں حاکم کی
جانشیں میرا خانداں سے رہے

ایسے لوگوں کا اعتبارہی کیا
جو ارادوں میں خونچکاں سے رہے

روند ڈالیں نمودِ گلشن کو
دشمنی ایسی گلستان سے رہے

گھر کے مالک بنے یہ جب چاہا
پاسباں کب وہ پاسباں سے رہے

عزم مضبوط حوصلہ ہو جواں
سامنا جب بھی سخت جاں سے رہے

ایسے سب حاکموں پہ لعنت ہو
ملک وملّت پہ جو گراں سے رہے

نہ تھے امید کے دیئے بھی خلش
دل ہمارے وہ خاکداں سے رہے
 
 
غزل
شفیق خلش

سائے ہیں بادلوں کے وہ، چھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم یہ سر مِرے  تھکتے نہیں ذرا

کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا

کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا

سُوجھے کوئی نہ بات ہمیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں ذرا

ہر روز ہاتھ سُرخ ہیں اوروں کے خون سے
کیا لوگ ہیں، کہ ظُلم سے تھکتے نہیں ذرا

انسانیت کا خُون اُنہی نے یہاں کِیا
قاتل جو اپنی شکل سے لگتے نہیں ذرا

بے سُود، ذکرِ غم ہے زمانے کے سامنے
دل اب کسی بھی طَور پِگھلتے نہیں ذرا

رہتی نہیں ہے دُھوپ ہمیشہ اگر خلش
کیوں زندگی سے درد یہ ہٹتے نہیں ذرا
 
شفیق خلش
Ghazal
Shafiq  khalish

saa'ay haiN baadlon ke woh, chaTte nahiN zara
la la ke gham yeh sar mire takhte nahin zara

kaise qaraar aaye dil-e-bay qaraar ko
ghar se ab apne woh, keh nikalte nahiN zara

kiya woh bichaR ga'aay keh khudaii bichaR gaii
dukh ab hamaari zaat ke baTte nahiN zara

soojhe koi na baat hamain aap ke ba'ghair
mousam takhayaloN ke badalte nahiN zara

har roaz haath surkh haiN auroN ke khoon se
kiya log hain , keh zulm se thakte nahiN zraa

insaniyat ka khoon unhi ne yahaaN kiya
qatil jo apni shkl se lghte nahiN zara

be sood, zikr-e-gham hai zamaane ke saamne
dil ab kisi be taur pighalte nahiN yahaa

rehti nahiN hai dhoop hamaisha agahr khalish
kiyuzindagi se dard yeh haTte nahin zara

shafiq khalish
**********************
**********************
 
غزل
شفیق خلش

غمِ حیات سے کب قلْب ہمکنار نہیں
خدا کا شکر، ضمیر اپنا داغدار نہیں
تمھارے ہجرمیں دل کو ذرا قرار نہیں
غمِ جہاں کی طرح تم سے بھی فرار نہیں
ہرایک چیزمیں ہوتی ہے کچھ کمی بیشی
بس ایک غم میں تمھارے ہی اختصار نہیں
بھروسہ غیر پہ رکھیں، کہاں رہا ممکن
خود اپنے گھرمیں کسی کا جب اعتبار نہیں
یہ خوف کیوں ہے کہ رسوا رہو گے دنیا میں
شریکِ گریہ ہیں یہ لوگ، رازدار نہیں
ارادہ یوں تو ہے پختہ نہ عشق کرنے کا
نگاہِ حُسن کا لیکن کچھ اعتبار نہیں
.................
غزل
شفیق خلش
 
محبّت اُن کی شاید بٹ گئی ہے
توجّہ مجھ سے تھوڑی ہٹ گئی ہے
خلا ہے اب زمین وآسماں سی
محبت درمیاں سے چھٹ گئی ہے
دِلوں کے فاصلے گھٹتے نہیں ہیں
مُقابل یوں مُصیبت ڈٹ گئی ہے
محبت میں کسے الزام دینا !
زباں میری، کہ جیسے کٹ گئی ہے
جُدائی میں، کہاں اب نیند آئے
خَلِش یہ کب کسی کروٹ گئی ہے
کہاں بُھولے خراماں ناز کو ہم!
کہاں دل سے کبھی آہٹ گئی ہے
سُجھائی کچھ نہ دے، ایسی ہے حالت
زمیں پیروں تلے سے ہٹ گئی ہے
محبت سے سجائی تھی، جو دنیا
الم کے خاک سے وہ اٹ گئی ہے
وقار ومنزلت بابت محبت
اچانک ایسی کیسے گھٹ گئی ہے
مرے دل میں جو تھی تیری تمنّا
بہت سی خواہشوں میں بٹ گئی ہے
خلش! کیا بے رخی کا اب گلہ ہو
یونہی جب عمر ساری کٹ گئی ہے
شفیق خلش
...................
غزلِ
شفیق خلش

دوڑے آتے تھے مرے پاس صدا سے پہلے
اب وہ شاید ہی، کبھی آئیں قضا سے پہلے


کوئی اور آ کے ہی بتلادے ہمیں حال اُن کا !
دردِ دل غم سا ہی ہو جائے سَوا، سے پہلے

 
عادتیں ساری عنایت کی بدل دیں اُس نے
اب تسلّی نہیں دیتے وہ سزا سے پہلے

روزوشب وہ بھی اذیت میں ہوئے ہیں شامل
یادِ جاناں میں جو رہتے تھے جُدا سے پہلے

خواہشیں ساری جو پنہاں ہیں مرے سینے میں
پوری ہونے کی نہیں تیری وفا سے پہلے

نازوانداز ہے کیا، حُسْن کے نخْرے کیا ہیں
کچھ بھی معلوم نہ تھا، اُن کی ادا سے پہلے

کھولنے آئی مُصیبت تھی حقیقت اُن کی
دوست بن بن کے جو مُلتے تھے ریا سے پہلے


 اُن دِیوں نے بھی سرِ باد ہی اِلزام دھرے
جل بُجھے تھے جو چَلی تیز ہَوا سے پہلے


چا ہے جانے پہ ہی وہ ہوگئے بدنام خلش
کیا سزا پائی ہے نسبت کی خطا سے پہلے

شفیق خلش
Ghazal
shafiq khalish

doRe aate the mire paas sada se pehle
ab woh shayad hi kabhi aa'eN qaza se pehle


koi aur aa ke hii batlade hameN haal un ka
dard-e-dil gham saa hi ho ja'ay sawa se pehle

aa'da'teN sari inaa'yat ki badal deeN usnay
ab tasallee nahiN dete woh saza se pehle

roz-o-shab woh bhi azziyat meN ho'ay haiN shaamil
yaad-e-janaaN meN jo rehtay thay juda se pehle

khauhisheN sari jo pinhaaN heN mire seene meN
poori hone ki nahiN teeri wafa se pehle

naaz-o-andaaz hai kya, husn ke nakhre kya haiN
kuch bhi maloom nah tha unki ada se pehle

khoalne aaii museebat thi haqeeqat  unki 
dost ban ban ke jo milte the reya se pehle


un diyoN ne bhi sar-e-baad hi ilzaam dhare
jal bujhe the jo chali taiz hawa se pehle

chahe jane pe hi, woh ho ga'ay badnaam Khalish
kya saza paii hai nisbat ki khata se pehle

by Shafiq Khalish

***************************
***************************
غزل
شفیق خلش
تمہاری، دل میں محبت کا یوں جواب نہیں
 کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں

ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
  عبادتوں کا مری اجر اور ثواب نہیں

اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں

سِوائے حُسن، کسی بات کی کہاں پروا
 ہمارے دل سے بڑا دہرمیں نواب نہیں

ہم اب بھی دل میں اُمنگیں ہزار رکھتے ہیں
 جواں یہ دل رہا دائم اگر شباب نہیں

کبھی کبھی ہی سہی، خواب میں تو آتے ہیں
 خدا کا شُکر یوں آنے میں کچھ حجاب نہیں

تلاش کیوں ثمرآور جہاں میں ہو، کہ خلش
 نِگاہِ یار سے بڑھ کر کوئی شراب نہیں

شفیق خلش
Ghazal
Shafiq Khalish

tumhari,dil meN muhabat ka yuN jawaab nahiN
ke is se, ham pe mauas'sar koi azaab nahiN

hazaaroN pooje magar but koi na haath aaya
  ibaadatoN ka miri ajr aur sawaab nahiN

umeed-e-wsl se qaaim haiN dhaRkaneN dil ki
wagerna hijr meN aisaa yeh kam kabaab nahiN

siwa'aye husn, kisi baat ki kahaaN parwaa
hamaare dil se baRa dhr meN nawaab nahiN

ham ab bhi dil meN umaNgeN hazaar rakhte haiN
jawaaN yeh dil rahaa daa'im agar shabaab nahiN

kabhi kabhi hi sahi, khuwaab meN to aate haiN
khuda ka shukr yuN aane meN kuch hijaab nahiN

talaash kiyuN samar aawar jahaaN men ho,ke khalish
nigaah-e-yaar se baRh ker koi sharaab nahiN

by Shafiq Khalish
............. 
*************************
************************

غزل
شفیق خلش

کِس کِس ادا سے اُن سے نہ تھی بات کی جناب
بنتی اگر جو بات،  تو کیا بات تھی جناب

ہو کر جُدا نہ دے ہے تکلّف مِزاج سے
اب تک وہ گفتگو میں کریں آپ، جی، جناب

بارآور آپ پر نہ ہوں کیوں کوششیں مِری
کب تک یہ بے ثمر سی رہے آشتی جناب

جاتے نہ کیسے اُن کے بُلانے پہ ہم بھلا
موضوعِ گفتگو پہ کہا عاشقی جناب

کب تھا میں اِضطراب وغمِ ہجْر آشنا
جب تک کہ آپ سے تھی فقط دوستی جناب

جانے کہاں گئی ہے، خوشی چھوڑ کر مجھے
کل تک تو ہر قدم وہ مِرے ساتھ تھی جناب

للچائے کیوں نہ جی ہر اک اچھی سی چیز پر
شامل ہے یہ سرشت میں، ہوں آدمی جناب

پُختہ یقین ہے کہ یہ جب تک جہان ہے
گونجے گی کوبہ کو یہ مِری نغمگی جناب

احساس، رنجِ مرگ پہ غالب ہے یہ خلش
زندہ اگر نہ میں تو مِری شاعری جناب
شفیق خلش


Ghazal
shafiq khalish

kis kis ada se ham ne, na thi baat ki janaab
banti agar jo baat to kiya baat thi janaab

ho kar judaa na day hai, takalluf mizaaj se
ab tak who guftugoo meN kareN aap, jee,janaab

baar aawar aap per na hoaN kiyuN koshisheN miri
kab tak yeh be-samar see rahe aashti janaab

jate na kaise unke bulaane pe ham bhala
moa’zoo-e-guftugoo pe kahaa aashqi janaab

kab tha meN iztraab-o-gham-e-hijr aashnaa
jab tak ke aap say thee faqat dostii janaab

jaane kahaaN gaii hai khushi choaR ker mujhe
kal tak to har qadam woh mire saath thee janaab

lalchaaye kiyuN na jee har ik achi see cheez par
shahmil hai yeh sarisht meN, hooN aadmi janaab

 pukhtah yaqeen hai, ke yeh jab tak jahaan hai
goanje gee koo ba-koo yeh miri naghmagi janaab

ehsaas ranj-e-merg pe, ghalib hai yeh KHALISH
zindah agar na meN to miri shahiree janaab

 
Shafiq Khalish

..........
******************
******************

غزلِ
شفیق خلش

جب جب کِئے سِتم، تو رعایت کبھی نہ کی
کیسے کہیں کہ اُس نے نہایت کبھی نہ کی

کیا ہو گِلہ سِتم میں رعایت کبھی نہ کی
سچ پُوچھیےتو ہم نے شکایت کبھی نہ کی

چاہت ہمارے خُوں میں سدا موجْزن رہی
صد شُکر نفرتوں نے سرایت کبھی نہ کی

شاید ہمارے صبْر سے وہ ہار مان لیں
یہ سوچ کر ہی ہم نے شکایت کبھی نہ کی

اُس چشمِ مے نواز و فسُوں ساز نے ہمیں
اک دیدِ التفات عنایت کبھی نہ کی

ہوگا غلط ، اگر یہ کہیں کارِعشق میں
عقل و ہُنر نے دل کی حمایت کبھی نہ کی

بھرتا ہُوں دَم میں اب بھی اُسی دلنواز کا
ترسیلِ غم میں جس نے کفایت کبھی نہ کی

اِس جُرمِ عاشقی میں برابر کے ہو شریک
تم بھی خلش، کہ دل کو ہدایت کبھی نہ کی

شفیق خلش


Ghazal
Shafiq Khalish

jab jab kiye sitam to ri’aayat kabhi na kii
kaise kaheN ke usne nihaayat kabhi na kii


kia ho gila sitam meN ri’aayat kabhi na kii
such poochiye to ham ne shikayat kabhi na kii


cha’hat hamare khooN meN sada mojzan rahi
sad shukr nafraton ne sarayat kabhi na kii


shayad haamre sbr se who haar maan lain
yeh soch ker hee ham ne shikaayat kabhi na kii


us chashm mai’nawaaz o fusooN saaz ne hamaiN
ik deed iltifaat inaayat kabhi na kii


hoga ghalat agar yeh kahen, kaar-e-Ishq meN
aql-o-hunar ne dil ki himaayat kabhi na kii


bharta hooN dam meN ab bhii usii dil nawaaz ka
tarseel-e-gham meN jis ne kifaayat kabhi na kii


is jurm-e-aashqi meN barabar ke ho shareek
tum bhi Khalish, ke dil ko hidaayat kabhi na kii

Shafiq Khalish

................. 
***************


غزلِ
شفیق خلش
آنکھوں کی پُوری ہو یہ عبادت رہی سہی
پڑھ لیں رُخوں پہ لِکھّی عبارت رہی سہی

کب تک ہو چِلمَنوں سے عَطَا حُسنِ خِیرہ کُن
مِل جائے اب نظَر کو اجازت رہی سہی

بے پردَگِی کی آس لگائے ہُوئے ہے دِل!
ہو دُور درمیاں سے قباحت رہی سہی

اب تاب ہی کہاں، کہ سَہے بندِشیں کوئی
حاصِل ہو دِل کو دِل سے اجازت رہی سہی

غم اِنتہا کا، مُجھ کو نہ لے جائے اُس جگہ
بُھولوں میں، اُس کی یاد کی راحت رہی سہی

مولا کرے ، ہو موت تصوّر لِئے تِرا
پوری ہو دل کی آخری حاجت رہی سہی

خَلوَت میں مُنتَظِر ہے تِری دِید کا خلش
چاہے پھر آئے اُس پہ قیامت رہی سہی
 

 شفیق خلش

Ghazal

Shafiq Khalish

Aankhon ki poori ho yeh ibaadat rahi sahi
paRh lain rukhoaN pe likh’khi ibaarat rahi sahi

kab tak ho chilmanoN se ataa husn-e kheerh kun
mil jaaye ab nazar ko ijaazat rahi sahi

be-pardagii kii aas laga’ye huwe hai dil
ho door dermiyaaN se qabaahat rahi sahi

ab tab hi kahaan ke sa’hay bandishen koii
hasil ho dil ko dil se ijaazat rahi sahi

gham intihaa ka, mujh ko na le jaaye us jagah
bhooloaN meN us ki yaad ki raahat rahi sahi

mola kare, ho moat tasauwar liye tiara
poori ho dil kee aakhri haajat rahi sahi

khalwat meN muntazir hai tiri deed ka Khalish
chaa’hey phir aa’aye us pe qayaamat rahi sahi

Shafiq Khalish 


*********************************
 

غزل
شفیق خلش

عالم جنُون خیز ہے، دمساز بھی نہیں
اِک ہم نفس تو کیا ، کوئی آواز بھی نہیں

وہ خامشی بَپا ہے مِری مُشتِ خاک میں
اِک شور حشْر سا بھی ہے، آواز بھی نہیں

حاصل کہاں سے ہونگی تصوّر کی ساعتیں
باقی تخیّلات میں پرواز بھی نہیں

یاد آئے جب بھی اُن کی، تو آنسو اُمڈ پڑیں
وہ ضبط غم پہ، تھا جو کبھی ناز بھی نہیں

 '  فرزندِ ارجُمند مُحمّد صدیق ہست '
حاصل یہاں وطن کا وہ اعزاز بھی نہیں

دل میں غمِ فِراق نے، چھوڑی نہ نغمَگی
بے ربط دھڑکنیں ہیں کوئی ساز بھی نہیں

بپتا ہم اپنے من کی سُنائیں کِسے خلش
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں

شفیق خلش

Ghazal
Shafiq Khalish

aalam junoon khaiz hai hamraaz bhi nahiN
ik hamnafas to kiya, koii aawaaz bhi nahiN

woh khaamshi bapaa hai miri musht-e-khaak meN
ik shoar hashr saa bhi hai aawaaz bhi nahiN

haasil kahaan se hoNgi tasaowur ki sa'ataiN
baaqi takhaiyulaat meN parwaaz bhi nahiN

yaad aa'ay jab bhi un ki to aaNsoo umaD paReN
woh zabt-e-gham peh thaa jo kabhi naaz bhi nahiN

ferzand-e-arjumand-e  mohammad siddiq hast
haasil yahaan watan ka woh aizaaz bhi nahiN

dil men gham-e-firaaq ne choRi na nagh'magii
be-rabt dhaRkaneN haiN, koi saaz bhi nahiN

biptaa ham apne man ki sunaaen kise KHALISH
ghuuT ghuuT ke mer rahe haiN, keh hamraaz bhi nahiN

Shafiq Khalish

................. 
***************


غزل
شفیق خلش

دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں
دل پر ہمارے زخم، اُنہی کی سزا کے ہیں

ہجرت، ملال، بے وطنی، بیکسی، الم
سارے ثمر یہ اپنی ہی شاخِ دعا کے ہیں

اُن کی وفا کی بات کا کرکے یقین ہم
یہ سوچتے ہیں کیا بھلا معنی جفا کے ہیں

افسوس اُن کو ہوگا ہمیں یاد کرکے کل
مسرورآج، ہم پہ جو تہمت لگا کے ہیں

کرتے ضرور دل کا کوئی انتظام ہم
گر جانتے کہ اُن کے ارادے دغا کے ہیں

ہر بار اُن کی جھوٹ پہ آجاتا ہے یقیں
الفاظ یوں زباں پہ وہ لاتے سجا کے ہیں

کچھ دیر قربتوں کا مزہ لوٹنے تو دیں
اطوار چاہتوں میں بھی جن کے قضا کے ہیں

یہ دوریاں دبا نہ سکیں بے قراریاں
بیٹھے دیارِغیر میں دل کو دبا کے ہیں

جاتی کہاں ہیں جی سے وہ فتنہ نمائیاں
اب بھی فسوں نگاہوں میں اُن کی ادا کے ہیں

کب رحم روز و شب کو مرے حال پر یہاں
آلام ہجرتوں کے تو دُگنی سزا کے ہیں

کیونکر اٹھائیں حشر پہ دل کا معاملہ
طالب تو ہم جہاں میں ہی روزِ جزا کے ہیں

الزام زندگی پہ خلش کیا دھریں کہ جب
آزار ہم پہ سارے ہی دل کی خطا کے ہیں

 شفیق خلش 
 
Ghazal


daa'we laboN peh jin ke hamaishah wafa ke haiN
dil par hamare zakhm, unhii ki saza ke haiN

hijrat, malaal, be-watani, be-kasi, alam
sare samar yeh apni hi shaakh-e-duaa ke haiN

unki wafaa ki baat ka ker ke yaqeen ham
yeh sochte haiN kiya bhala maani wafa ke haiN

afsoas un ko hoga hamaiN yaad ker ke kal
masroor aaj ham peh jo toHmat laga ke haiN

kerte zaroor dil ka koi intizaam ham
gar jaante, keh unke irade dagha ke haiN

har baar un ki jhooT peh aa'jaata hai yaqeeN
alfaaz yuN zubaaN peh woh laate saja ke haiN

kuch dair qurbatoaN ka maza looTne to daiN
atwaar chahatoN meN bhi jin ke qaza ke haiN

yeh dooriyaaN daba na sakeN be-qarariyaaN
baithe dayaar-e-ghair meN dil ko daba ke haiN

jaati kahaaN haiN jee se woh fitnah numa'eyaaN
ab bhi fusooN nigahoN meN un ki ada ke haiN

kab rahm roaz-o-shab ko mire haal par yahaaN
aa'laam hijratoN ke to dugni saza ke haiN

kiyuNkar utha'aeN hashr peh, dil ka muaam'lah
taalib to ham jahaaN meN hi roaz-e-jaza ke haiN

ilzaam zindagi peh KHALISH kiya dhareN, ke jab
aazaar ham peh saare hi dil ki khataa ke haiN

by shafiq khalish


................. 
*************** 


غزلِ
شفیق خلش

ابھی کچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں


نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چکی ہیں سبھی اِلتجائیں


زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں


مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں


خَلِش تم زمیں کے، وہ ہیں آسمان پر
بھلا کیسے سُنتے تمہاری صدائیں


شفیق خلش



Ghazal  
   
abhi kuch haiN milne ko baaqi saza'eN
woh gintay haiN baithe hamari saza'eN

nahiN aate pal ko jo pehroaN yahaN thy
asar kho chuki haiN sabhi iltijaa'eN

zamana huwa choaR aaye watan meN
nazar dhondtii hai ab un ki adaa'eN

mire khoon-e-naahaq pe ab woh tulay haiN
jo thakte na thay le ke meri balaa'eN

Khalish tum zameeN ke, woh haiN aasmaaN per
bha'laa kaise suntay tumharii sadaa'eN

by sahfiq khalish 


.................
***************

غزل

شفیق خلش

رنجشوں کو دل میں تم اپنے جگہ دینے لگے
غم ہی کیا کم تھے، جو اَب یوں بھی سزا دینے لگے

خواہشیں دل کی دبانےسے کہیں دبتی ہیں کیا
بھول کرمیری وفاؤں کو جفا دینے لگے

یوں تمہاری یاد نے فرقت کا عادی کردیا
ہجرکےغم بھی بالآخر اب مزہ دینے لگے

کیا یہ تجدیدِ محبت ہی علاجِ دل بھی ہے
آپ بیمارِ محبت کو دوا دینے لگے

باغ میں میرے سُلگتے آشیاں کو دیکھ کر
"جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"

کیوں ہوئے مرنے پہ راضی، بات آخر کیا ہوئی
کیا کفن کو وہ تمہیں اپنی قبا دینے لگے

زندگی بھر جن کو سُننے کی تڑپ دل میں رہی
اٹھ گئے جب ہم جہاں سے تب صدا دینے لگے

رزقِ غم کی یُوں ہُوئی دُنیا میں قسمت سے تلاش
سب کے سب اُس کو ہمارا ہی پتہ دینے لگے

کیا نہ دعوہ عشق میں شادی سے پہلے تھا تمہیں
کیا طبیعت بھر گئی جو، یُوں سزا دینے لگے

مُنتظر جب ہم رہے ، آیا نہ ان کو کچھ خیال
بُجھ گئے جب دل کے جذبے تب ہوا دینے لگے

اک اگر ہو، تو کریں شکوہ ہم اُس کی ذات سے
ہم کو سارے ہی خلش مِل کر سزا دینے لگے

  شفیق خلش
******


Ghazal

ranjishoN ko dil meN tum apne jaga dene lage

gham hi kia kam the jo ab yuN bhi saza dene lage



khuwahisheN dil ki dabane se kahiN dabti hain kia

bhool ker meri wafaaoN ko jafa dene lage



yuN tunhari yaad ne furqat ka aadi kerdiya

hijr keg ham bhi bilaakhir ab maza dene lage



kia yeh tajdeed-e-muhabbat hi elaaj-e-dil bhi hai

aap beemar-e-muhabbat ko dawaa dene lage



baagh meN mere sulaghte aashiyaaN ko daikh kar

“ jin pe takiyah thaa wohi patte hawaa dene lage ”



kiyuN hue merne pe raazi, baat aakhir kia huii

kiya kafan ko who tumheN apni qabaa dene lage



zindagi bhar jin ko sun’ne ki taRap dil meN rahi

uth ga’ay jab ham jahaaN se tab sada dene lage



rizq-e-gham ki yuN huii duniya meN qismat se talash

sab ke sab us ko hamaara hi pataa dene lage



kiya na daawa ishq meN shadi se pehle tha tumhaiN

kiya tabi’at bhar gaii jo yuN saza dene lage



muntazir jab ham rahe, aaya na un ko kuch khayaal

bujh ga’ay jab dil ke jazbe tab hawa dene lage



ik agar ho to kareN shikwa ham us ki zaat se

ham ko sare hee khalish mil ker saza dene lage

Shafiq khalish



.................
***************


غزل
شفیق خَلِش

کچھ پیار محبت کے صدموں، کچھ زہر بھرے پیمانوں سے
جو ہوش گنوائے پھرتے ہیں، کچھ کم تو نہیں دیوانوں سے

اِس حالت پر افسوس نہیں، یہ راہِ دل کا حاصل ہے
وہ عالم دل کو راس تھا کب، نفرت ہی رہی ایوانوں سے

وہ داغ کہ اُن کی چاہت میں، اِس دامن دل پر آئے ہیں
شل رکھا اپنا دستِ طلب اور خوف رہے ارمانوں سے

عادت سے ہماری شیخ تو ہے، سب رند کہاں نا قواقف ہیں
ہم دُور رہے ہیں مسجد سے، کب دُور رہے میخانوں سے

ہر شمع کی یہ فطرت ٹھہری، محفل میں بُلا کر جاں لینا
مرنے کا نہیں افسوس خلش، نِسبت تو رہی پروانوں سے

 شفیق خَلِش
.................
***************


غزل
شفیق خلش

مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب
تعبیر وَسوَسے لئے سب چاہتوں کے خواب

دل کے یقینِ وصل کو پُختہ کریں کچھ اور
ہرشب ہی ولوَلوں سے بھرے ہمّتوں کے خواب

پَژمُردہ دل تُلا ہے مِٹانے کو ذہن سے
اچّھی بُری سبھی وہ تِری عادتوں کے خواب

کیسے کریں کنارا، کہ پیشِ نظر رہیں
تکمیلِ آرزو سے جُڑے عظمتوں کے خواب

ہجرت سِتم نہ لوگوں کے ہم سے چُھڑا سکی
آئیں یہاں اب اُن کی اُنہی تہمتوں کے خواب

یادش بخیر! اُس نے ہی دِکھلائے تھے ہمیں
رنگوں بھرے گُلوں سے لدے پربتوں کے خواب

دل کو لُبھائے رکھتے ہیں پردیس میں خلش
نسبت سے اُن کی یاد ہمیں، مُدّتوں کے خواب

شفیق خلش

.................
***************


غزلِ
شفیق خلش

وہ،  جس کی یاد میں  نیناں ہمارے ترسے رہے
اب اُس وطن کو بھی جانے سے، جاں کے ڈرسے رہے

جہاں میں جن کی توسط سے بے ثمر سے رہے
ہمارے حال سے وہ بھی تو بے خبر سے رہے

ہُوا نہ ترکِ وطن سے بھی کچھ ہمیں حاصل
  
دیارغیر میں آکر بھی در بہ در سے رہے

خدا گواہ ہے، کہ رہنا یہاں نہیں تھا ہمیں
وطن میں جان گنوانے کی، اپنے ڈرسے رہے

وہ جن کو جان بھی لینے پہ کچھ ملال نہ ہو
خدا کا شکر کہ محفوظ اُن کے شر سے رہے

رہِ فریب میں چل کر جو ہو گئے پختہ
وہ زندگی کی کسی اور اب ڈگر سے رہے

ہم اُن کی باتوں میں آکر وہاں چلے جائیں
وطن کے لوگ اب ایسے نہ معتبر سے رہے

  
خلش، ملال رہے یوں، کہ ہم ہمیشہ ہی
کسی بھی سانحہ ہونے کا، منتظر سے رہے
 
شفیق خلش

*****

Ghazal  
 
woh jis ki yaad meN nainaaN hamare tar se rahe
ab us watan ko bhi jane se, jaaN ki Dar se rahe

jahaaN meN jis ki tawassut se be samar se rahe
 hamare haal se woh bhi to be khabar se rahe

huwaa na tark-e-watan se bhi kuch hamaiN haasil
dayaar-e-ghair meN aakar bhi, dar ba dar se rahe

khuda gawaah hai, keh rehna yahaaN nahiN tha hamaiN
watan meN jaan gauNwane ki, apne Dar se rahe

woh jin ko jaan bhi laine peh kuch malaal na ho
khuda ka shukr ke mehfooz un ke shar se rahe

ra'hay faraib meN chal ker jo ho ga'ay pukhtah
woh zindagi ki kisi aur ab Dagar se rahe

ham un ki baatoN meN aakar wahaaN chale jaaeN
watan ke loag ab aise na moatabar se rahe

KHALISH, malaal rahe, yuN ke ham hamaishah hi
kisi bhi saan'hah hone ka, muntazar se rahe

by shafiq khalish
.................
***************

غزل
شفیق خلش


پھروہ پہلی سی تھی جو بات نہ ہو جائے کہیں
دل شناسائے خرابات نہ ہو جائے کہیں

گُم تعاقب میں تِرے ذات نہ ہو جائے کہیں
روزِ روشن بھی مِرا رات نہ ہو جائے کہیں

دل سے اپنے رہے خدشہ، کہ تجھے دیکھ کے پھر
منحرف مجھ سے یہ بد ذات نہ ہو جائے کہیں

دُوررہتا ہوں تو ڈرتا ہوں، کہ اِس دُوری سے
سرد  یہ شورشِ جذبات نہ ہو جائے کہیں

لوٹ آوں جو تِرے شہر تو دھڑکا یہ رہے
پیار پھر شاملِ حالات نہ ہو جائے کہیں

 
بات کہنے کی خلش دل میں ہے جو، کہ ڈالو
غم کی، سینے کو یہ سوغات نہ ہو جائے کہیں

شفیق خلش


Ghazal  
 
 phir woh pehli si thii jo baat na ho jaaye kahiN
dil shinaa'saa'ye kharaabaat na ho jaaye kahiN

gum ta'aaqub meN tire zaat na ho jaaye kahiN
roaz-e-roshan bhi mira, raat na ho jaaye kahiN

dil se apne rahe khadsha, ke tujhe daikh ke phir
munharaf mujh se yeh bad zaat na ho jaaye kahiN

door rehta hooN, tau dartaa hooN ke is doori se
sard yeh shorash-e-jazbaat na ho jaaye kahiN

laut aaooN jo tire she'r, tau dhRkaa yeh rahe
piyaar phir shaamil-e-haalaat na ho jaaye kahiN

mat gino apni safaaii meN karam yuN, keh mira
dil bhee maayal ba hisaabaat na ho jaaye kahiN

baat kehne ki khalish dil meN hai jo, keh daalo
gham ki, seene ko yeh saughaat na ho jaaye kahiN

By Shafiq Khalish
***************
 غزلِ

شفیق خلش

کچھ نہ ہم کو سُجائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے

خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے

ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی اب گُل دِکھائی دیتا ہے

دسترس میں ہے کچھ نہیں پھر بھی
اونچا اونچا سُجائی دیتا ہے

کب محبت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا ہے

تار ٹُوٹے ہیں زندگی کے سبِھی
ساز دل کا سُنائی دیتا ہے

کیسے گزرے گی زندگی تنہا
دل بھی اب تو دُہائی دیتا ہے

میری آنکھوں کو عِشق اشکوں کی
پھر سے اپنی کمائی دیتا ہے

روز کرتا رہا جو مجھ پہ سِتم
دوست اب بھی دِکھائی دیتا ہے

رہنما کچھ بھی جب نہیں ہوتا!
راستہ کب دِکھائی دیتا ہے

اُن کے شانے سے، سر لگا کے خلش
ہم کو رونا سُجائی دیتا ہے

دُور ایسا کیا ہے قسمت نے!
کب یہ مُمکن دِکھائی دیتا ہے 



شفیق خلش

................

 غزلِ

شفیق خلش
 
بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہے
جو آئے راس، دل اکثر وہ موسم ڈھونڈ لیتا ہے

کسی لمحے اکیلا پن اگر محسوس ہو دل کو
خیال یارکے دامن سے کچھ غم ڈھونڈ لیتا ہے

کسی رُت سے رہے مشرُوط کب ہیں روز وشب میرے
جہاں جیسا یہ چاہے دل وہ موسم ڈھونڈ لیتا ہے

غمِ فرقت کا دل کو بوجھ کرنا ہو اگر ہلکا !
سُنانے کو تِرے قصّے یہ ہمدم ڈھونڈ لیتا ہے

جدائی کب رہی مُمکن کسی حالت کوئی صُورت
مجھے، محفل ہو تنہائی ترا غم ڈھونڈ لیتا ہے

رہے یوں ناز اپنے ذہن پر لاحق غموں میں بھی
خوشی کا اک نہ اک پہلو یہ تاہم ڈھونڈ لیتا ہے

خیالِ یار ہی درماں غمِ فرقت کی زخموں کا
کہ بیتے ساتھ لمحوں سے یہ مرہم ڈھونڈ لیتا ہے 



شفیق خلش
.......................

شفیق خلش
بدلے بہت ہیں ہم نے اطوار زندگی کے
کُھلتے نہیں ہیں پھر بھی اسرار زندگی کے
کوئی تو ایسا ہوتا، ہم یاد کرکے روتے
گزرے ہیں سارے دن ہی بیکار زندگی کے
اپنوں کے ہاتھوں مرتے دیکھے ہیں روز اپنے
کیسے ہیں یہ تماشے خونخوار زندگی کے
آمر نہیں ہے فوجی، پھر بھی وہی چلن ہے
کالک مَلی ہے کس نے اِس بار زندگی کے
مانگیں عذاب سے ہیں، سب لوگ ہی رہائی
طالب نہیں وطن میں، دو چار زندگی کے
سب ہی تڑپ رہے ہیں تیرے دِئے وطن میں
ہلکے ہوں اب تو مالک، کچھ بار زندگی کے
ہر روز کی قیامت نازل نہ کر خدایا
نام ونشاں مِٹا دے اک بار زندگی کے
بُھولے ہیں کب خلش ہم، اپنی وطن کی یادیں
خوش رنگ تِتلِیاں وہ، وہ پیار زندگی کے
....................

آئی ہے جب بھی یادِ وطن، تنگ کرگئی
قرطاسِ خوش نظر کو لہو رنگ کرگئی
 
حفظ وسلامتی کو ترستے ہیں لوگ اب
محفوظ کچھ نہیں ہے، خبردنگ کرگئی
 شفیق خلش 
.....................
غزلِ
شفیق خلش

راہوں میں تِری بیٹھنے والا نہ مِلے گا
ہم جیسا تجھے سوچنے والا نہ مِلے گا

گو دیکھنے والوں کی کمی تو نہیں ہوگی
پر میری طرح دیکھنے والا نہ مِلے گا

شاید کئی بن جائیں تِرے چاہنے والے
مجھ جیسا مگر پُوجنے والا نہ مِلے گا

مِل جائیں گے دُنیا میں حَسِیں یوں تو ہزاروں
دل ایسا کوئی لوُٹنے والا نہ مِلے گا

وہ زود خفا ہے، کہ خفا رہتا ہے اکثر
ڈھونڈے سے بھی یوں رُوٹھنے والا نہ مِلے گا

مُمکن ہے نظر آئیں کئی حُسن کے پیکر
یوں دل کو کوئی کھینْچنے والا نہ مِلے گا

دل کھو کے خلِش شُکر کے سجدے یوں کریں ہم
دل ایسا حَسِیں چھیننے والا نہ مِلے گا

شفیق خلش

...........................

غزلِ
شفق خلش

نظر سے میری جو پردے ہٹا دِئے رب نے
تماشے سب کے ہوں جیسے لگا دِئے رب نے

دِکھا کے آج سرِ راہ اُن کو پھر سے ہمیں
تمام لوگ نظر سے ہٹا دِئے رب نے

خیالِ یار سے راحت ہے زندگی میں مُدام
نشاط و کیف سب اِس میں بسا دِئے رب نے

حَسِین ایک نظارہ نہیں جُدا اُن سے
سب اُن کی دِید میں جلوے سجا دِئے رب نے

ذرا سی مجھ کو مُصیبت میں ڈال کر یوں خلِش
ہٹا کے چہروں سے چہرے دِکھا دِئے رب نے

شفیق خلش

.................................


شفیق خلش

عذابِ زیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
میری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں

بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دم سے تھیں شنوائیاں، نہیں جاتیں

گو ایک عمر جُدائی میں ہو گئی ہے بسر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں

مُراد دل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں نہیں جاتیں

اک آرزو تھی جو حسرت میں ڈھل چکی کب کی
مگرخیال سے شہنائیاں نہیں جاتیں

ہزارمحفلِ خُوباں میں جا کے دیکھ لیا
مِلی جو تُجھ سے ہیں تنہائیاں نہیں جاتیں

زمانے بھر کی دُکھوں کا ہُوا ہے دل مَسْکن
غموں کی مجھ پہ یہ آسانیاں نہیں جاتیں

حُصول یارکے زُمْرے میں کچھ نُمایاں سے
عمل نہ تھے، کی پشیمانیاں نہیں جاتیں

دیےجو چارہ گروں نے، ہم آزما بھی چکے
کسی بھی نسخے سے بیتابیاں نہیں جاتیں

خلش، جو ہوتے مقدّر کا تم سکندر تو
تمہاری زیست سے رعنائیاں نہیں جاتیں

شفیق خلش

.................



















غزل
شفیق خلش
نظر جیسی نظر ہو تو نظارے بول پڑتے ہیں
اشارے ہوں نہاں، اِس کے سہارے بول پڑتے ہیں
ہمارے دیس میں اب تک کئی ایسے علاقے ہیں
ڈھلےسورج جہاں سوئے چوبارے بول پڑتے ہیں
چھپائے لاکھ ہی اُس کو سمندر اپنی موجوں میں
کسی طوفاں کی آمد کا، کنارے بول پڑتے ہیں
عیاں کرنا نہ چاہے عشق کو اپنے، کوئی جتنا
سلگتا دل ہو گر اِس میں، شرارے بول پڑتے ہیں
لگی ہو چپ زمانے سے کسی بھی بات پر، لیکن
جہاں ہو ذکر شادی کا، کنوارے بول پڑتے ہیں
کہاں سے دیر تک سونا میّسر ہو اب اُس گھر میں
جہاں پر صبْحِ صادق ہی غرارے بول پڑتے ہیں
خلش کیسے کریں اُن سے کوئی بھی بات دُکھڑے کی
ذرا جو دل پسیجا، غم وہ سارے بول پڑتے ہیں
شفیق خلش
.................



















بہ رفتنِ شہزاد
تجھ سے مِلے احساس، مِٹانے کے نہیں ہم
شہزاد تُجھے دِل سے بُھلانے کے نہیں ہم

ہے قصْد، کہ رکھّیں گے تُجھے یاد ہمیْشہ
رِحْلت سے تِری تُجھ کو بُھلانے کے نہیں ہم

آجائیں گے دُنیا میں کئی اور سُخنْور
لیکن کوئی شہزاد سا، پانے کے نہیں ہم

احسان تِری ذات پہ کیا کیا نہیں اُس کا
اُردو! یہ تُجھے گِن کے بتانے کے نہیں ہم

دُکھ سے ہے عجَب ضعْف، خلِش جان پہ طاری
شاید، کہ مِلا غم اب اُٹھانے کے نہیں ہم

شفیق خلش

 to see more picturet Click here -- ( تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں)

 Home  ---  صفحہ اول