شفیق خلش
غزل
ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو
جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو
قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو
شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو
یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ
دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو
سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب!
سِتم سے اپنوں کے حاصِل کہِیں پَناہ تو ہو
لِکھے پہ مشورہ دینا بُرا نہیں، لیکن!
سُخن طرازی میں تھوڑی سی دست گاہ تو ہو
خوشی نہ دی تو خوشی کے لیے دُعائیں د یں!
کرَم نَواز نہیں تُم جو، خیر خواہ تو ہو
ہمارے غم کو پرکھنے، موازنہ کے لیے!
دُکھوں کا اُن کے حوالے سے داد خواہ تو ہو
جہاں کہیں ہو خلشؔ ! ڈُوبنے کا اندیشہ
نَوِشتہ ایسی جگہ پر اِک اِنتباہ تو ہو
ضرور ہونگے مراسم بھی اُستُوار خلشؔ!
قریب رہنے کو کُچھ دِن قیام گاہ تو ہو
وہ سکوت اپنے میں جو شور دبادیتے ہیں
جُوں ہی موقع ملے، طوفان اُٹھادیتے ہیں
خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں
چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں
آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ سا بنا دیتے ہیں
درد و غم دینے کا کیا غیروں سے شکوہ، جبکہ!
خود مِرے اپنے بھی کُچھ کم نہ جُدا دیتے ہیں
چشم و لَب اُس کے تَصوّر میں ہوں تو نیند کہاں
آنکھ لگ جائے بھی تو خواب جگا دیتے ہیں
خوف لاحق رہے ہردَم ہَمَیں رُسوائی کا
غم توسّط کے ہم ایسے نہ چُھپا دیتے ہیں
ہو گُماں اُن پہ بھی احباب و اقارِب کا ہَمَیں
جب وہ دیوار سے بے وجہ لگا دیتے ہیں
اُس کی خواہش میں ہُوئے لوگ یُوں حاسد، کہ خلشؔ
بیٹھ پائیں بھی جو دَر اُس کے، اُٹھا دیتے ہیں
شفیق خلشؔ
...........................
غزل
شفیق خلش
لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے
جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے
یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے
رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے
خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے
آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے
جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے
رکھ کر خیالِ خاطر و آداب تھک گئے
قائم ہیں سطحِ آب پہ وہ نقش، جن کی سب!
کوشِش میں زیرِآب کی، گرداب تھک گئے
تھی پُر اذیّتوں سے مُسافت نہ پُوچھیے!
ہم کیا سفر کے سارے ہی اسباب تھک گئے
جب اور ظلم کرنے کی طاقت رہی نہ کُچھ!
سب میں اُڑائی میرے تب و تاب تھک گئے
بھرتا کہِیں ہے پیٹ تسلّی سے بھی کوئی!
دے دے کے شہر و دہر کے ارباب تھک گئے
یک مُشت خاتمہ کا، تب آیا اُنھیں خیال
کر کر کے جب سِتَم مِرے احباب تھک گئے
آنکھیں بھی اب وہ دوست خلشؔ مانتی نہیں
جِن میں سجا کے روز نئے خواب تھک گئے
شفیق خلشؔ
.....................................
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفیق خلش
غزل
فیصلہ کرلے اگر وہ پیش و پس ہوتا نہیں
اِلتجاؤں پر بھی میری ٹَس سے مَس ہوتا نہیں
ہے گِلہ سب سےحضُور اُن کے کئے ہر عرض پر!
کیوں مَیں دوزانوں مُقابل، اِس بَرس ہوتا نہیں
یا الٰہی! اپنی رحمت سے دِل اُس کا پھیر دے
لاکھ کوشِش پر جو زیرِ دسترس ہوتا نہیں
کوئی تو، اُن کے تکبّر پر کہے اُن سے ذرا
ایسی باتوں کا نتیجہ دُور رس ہوتا نہیں
لاکھ پردوں میں چُھپائے کوئی بھی اپنا عَمل
غیب کی نظروں میں کچھ بھی مُلتَبَس ہوتا نہیں
ہر سِتَم پر ہو خوشی حاصِل اُنھیں یہ جان کر!
چُپکے چُپکےسہہ رہا ہُوں ،کہدوں بَس، ہوتا نہیں
بد سُخن بھی، بس اِسی اِک سوچ سے برداشت ہوں
ہے کوئی گُلشن، کہ جس میں خاک و خس ہوتا نہیں
کوئی بھنورا،یا کہ عاشِق پاس تک جن کے نہ ہو
ایسے پھُولوں میں عُموماََ، کوئی رس ہوتا نہیں
یُوں تو رہتا ہے ہمیشہ ساتھ میرے وہ خلؔش
سامنا اُس کا ،حقیقت میں ہی بَس ہوتا نہیں
شفیق خلشؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے
زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے
اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے
اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے
رُخِ سیماب پہ آنکھیں ہیں غزالوں جیسی
رنگِ لب اُس پہ گلابوں سے حَسِیں کُچھ کم ہے
یہ الگ بات ہے آئیں گے نہیں ،کہہ کر بھی
پھروہی وعدۂ آمد ، کا یقیں کُچھ کم ہے
کیا زمانہ تھا، کہ ہر روز مِلا کرتے تھے !
دِل تعلّق نہ وہ ہونے پہ حَزِیں کُچھ کم ہے
کہہ اُٹھیں لوگ جسے دیکھ کے سبحان اللہ
دِل اُسی زہرہ جبیں کا ہے رَہِیں ، کُچھ کم ہے
ہمہ وقت اُس کی پرستش سے بھی دِل کو تیرے
جب مُکمّل نہ ہو راحت ، تو کہیں کُچھ کم ہے
وجہِ اِفراطِ محبّت، جو ہُوا جاناں کی!
مجھ پہ اُس رب کی عناعت بھی ، کہِیں کُچھ کم ہے
اِک تلاطُم کا جو باعث تھا جوانی میں، خلشؔ
خُوب رُو ، اب بھی ہوں اُس دِل کے مکیں، کُچھ کم ہے
شفیق خلؔش
.............
غزل
شفیق خلش
آپ کہیے تو سب بجا کہیے
کیوں نہ پھر آپ کو خدا کہیے
دوست کہیے نہ آشنا کہیے
ہیں بضد ہم سے کچھ جُدا کہیے
اُن کو کہیے اگر تو کیا کہیے
دردِ دِل کی نہ گر دوا کہیے
دردِ فُرقت ہے اب سَوا کہیے
موت یا وہ، رہی دوا کہیے
جان کہتے ہیں، راحتِ جاں بھی
بڑھ کر اِس سے بھی کیا خدا کہیے
اُن سے کہیے اب اور کیا قاصد
مر رہے ہیں، جو ہیں جُدا کہیے
ہر قدم حشر ہو بَپا جن سے
ہر ادا جن کی اِک سزا کہیے
رَچ گئے ہیں ہماری سانسوں میں
کیسے اُن سے رہیں جُدا کہیے
بِچھڑے سب دوست اُن سے مِلنے پر
اِس رفاقت کو دُھوپ سا کہیے
اِنتہا ہر عَمل میں ٹِھیک نہیں
حُسنِ یکتا کو بھی تو جا کہیے
کیا نصیحت کو ہیں ہمِیں ناصح
کچھ خلِش پر بھی رحم کا کہیے
شفیق خلش
.............
غزل
بیٹھے تِرے خیال میں تصوِیر بن گئے
خوابوں میں قید رہنے کی تعبیر بن گئے
نا راستوں کا علم، نہ منزِل کا کُچھ پتہ
کیسے سفر کے ہم یہاں رہ گیر بن گئے
کیا کیا نہ ذہن و دِل میں تہیّہ کیے تھے ہم
اِک ہی نظر میں تابع و تسخِیر بن گئے
ہم نے تمھارے ساتھ گزارے تھے جو کبھی
لمحے وہی تو پاؤں کی زنجیر بن گئے
نامُمکناتِ دہر میں شامل تھے وہ، مگر
ہو سہل ہم پہ قابلِ تسخِیر بن گئے
باقی خیال میں بھی خوشی کی نہیں جھلک
تم بھی تو ایک مِٹتی سی تحرِیر بن گئے
نِسبت سے تیری خواب جو دیکھا کِیے کبھی
رنج و الم کے سب وہی تعبیر بن گئے
بڑھ کر سب اِبتدائے شبِ ہجر کے سِتم
آہ و فغاں و نالۂ شبگِیر بن گئے
ہر رات ضبط پر بھی جو نالے تھے سِسکیاں
پُرشور اُٹھ کے شب مِری تشہیر بن گئے
ملکہ تھا صبْر پر وہ کہ لِکھتے نہ کُچھ ، مگر
دِل کے پھپولے باعثِ تسطِیر بن گئے
رکھّا ہے ہم کو دِل نے کہیں کا کہاں خلش
ہر غم لگا کہ اب مِری تقدِیر بن گئے
شفیق خلش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
جب سمن یا گلاب دیکھوں میں
دل کو خود پر عذاب دیکھوں میں
زیست کی جب کتاب دیکھوں میں
سب رقم اُس کے باب دیکھوں میں
عاشقی گر نصاب دیکھوں میں !
حُسن اُس کا جواب دیکھوں میں
اُس کے لب اور چشمِ مِینا سے
کیا چَھلکتی شراب دیکھوں میں
جس کے سِینے میں دِل ہے پتّھر کا
دِل کو اُس پر ہی آب دیکھوں میں
دُور ہو تیرگئ شب جس سے !
دِن کو اکثر وہ خواب دیکھوں میں
منعقد کیا نہیں تماشے ہیں !
کیا نہیں بے حساب دیکھوں میں
اب مسائل کا کچھ بُجز جاناں !
حل نہ کوئی جواب دیکھوں میں
ہو تخیّل میں وہ، تو دُھوپ میں بھی
خود کو زیرِ سحاب دیکھوں میں
حسرت اِک بھی نظر نہیں آئے
جب جوانی کا باب دیکھوں میں
چاند بدلی تلے پہ، چہرۂ خوب
اُس کا زیرِ نقاب دیکھوں میں
مُستجاب اب ہوئی دُعا شاید !
دسترس میں جناب دیکھوں میں
عمر اب بھی نہیں کچھ ایسی خلش
ہر عمل میں ثواب دیکھوں میں
شفیق خلش
................
غزل
شفیق خلش
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں سنبھالے ہُوئے رکھّے وہ جو ہم سا ہوگا
ہم سمجھ لیتے ہیں داغوں کے سُلگنے پہ خلش
درد جب حد سے گُزر جائے تو کم سا ہوگا
شفیق خلش
.............
غزل
شفیق خلش
پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی
اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو
نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی
میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں
دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی
بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے
اے کاش پھر سے لوٹیں نہ تنہائیاں وہی
جاتی ہیں عادتیں کہیں پختہ رہیں خلش!
چاہے نہ کب یہ دل کہ ہو، نادانیاں وہی
قوّت کہاں ہے دل میں سہے پھر سے اب خلش
آئیں جو لوٹ کر مری ناکامیاں وہی
شفیق خلش
.............
غزل
شفیق خلش
پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے
رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند
سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے
ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں
لاحق ہماری جان کو حاجت تمہی سے ہے
لو آج تم سے کہتا ہُوں دِل میں چُھپائی بات
جو خود سے بڑھ کے ہے، وہ محبّت تمہی سے ہے
تم خوش ہو مجھ سے گر، تو خدا بھی ہے خوش مِرا
جو مجھ پہ ہے وہ رب کی عنایت، تمہی سے ہے
نازاں تمھارے حُسن، ملے پیار پر خلِش
اِس پر ہُوا جو سایۂ رحمت تمہی سے ہے
شفیق خلش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے
فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے
ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے
دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا
گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے
راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج
ضبط و حیا سے دِن میں کبھی گر بَھلے رہے
چمکے نہ روشنی میں بھی ہم آفتاب کی
شب کی طرح یہ دِن بھی تو ہم پر کڑے رہے
ہارے ہیں شب سے یُوں، کہ نظر میں سَحر نہ تھی
دِل میں غُبارِغم تھے کہ، شب بھر بَھرے رہے
مُشکل ہے یہ خلش! کہ ہوں غم زیست سے جُدا
اِک عُمر سے یہ سِینے میں خود سر پَلے رہے
آوارگی کے قصد سے آخر نِکل گئے
تنگ آ گئے تھے ہم بھی بہت گھر رہے رہے
کیا جانیے خلِش اُنھیں کیسا ملال تھا
پہنچے نہ تم ، تو وہ سرِ بستر پڑے رہے
...............
غزل
شفیق خلش
اب یہ مُمکن نہیں نِکلیں گے کبھی دام سے ہم
سب کہَیں عِشق کے ہونے پہ گئے کام سے ہم
کون کہتا ہے، ہیں بے کل غم و آلام سے ہم
جو تصوّر ہے تمھارا، تو ہیں آرام سے ہم
اب نہ یہ فکر کہ ہیں کون، کہاں پر ہم ہیں !
جانے جاتے ہیں اگر اب، تو دِئے نام سے ہم
یُوں نہ تجدیدِ تعلّق کا اب اِمکان رہا !
ٹھہرے نظروں میں ہیں اُس کی بھی تو بدنام سے ہم
کیا پہنچ پائیں گے منزِل پہ کبھی یہ سوچو !
دِل گرفتہ اگر ایسے رہے ہر گام سے ہم
فکرِ فردا کریں، کُچھ غور رہے حال پہ تب !
جب نِکل پائیں بھی گُزرے ہُوئے ایّام سے ہم
جاں میں طاقت بھی نہیں اب، کہ زمانے سے لڑیں
کھو چُکے زور وہ سب ہجر کے آلام سے ہم
وہ گلی یاد ہے مجنوُں کو، تِرے پاگل کو
جانے جاتے تھے جہاں، ایسے کئی نام سے ہم
کہہ کے اب تم کو خَلِش کون پُکارے گا یہاں
ہو گئے اپنا وطن چھوڑ کے بے نام سے ہم
شفیق خلش
..............
غزل
شفیق خلش
اُن کی طرف سے جب سے پیغام سے گئے
اپنے اِرادے سارے انجام سے گئے
اُلفت میں خوش رُخوں کی، خوش نام سے گئے
ہم جس جگہ گئے ہیں ، بدنام سے گئے
اظہارِ آرزو سے کُچھ کم غضب ہُوا
مِلنا مِلانا دُور اِک پیغام سے گئے
مِلتی ہے زندگی کو راحت خیال سے
حاصل وہ دِید کی ہم اِنعام سے گئے
جب سے نِہاں ہُوئی ہے آنکھوں سے وہ غزل
اشعار نکتہ سنجی، اِیہام سے گئے
افسوس حرصِ دِل پر رہتا نہیں ہے کب
لالچ میں ہم سبُو کی اِک جام سے گئے
درباں نے دُور دَر سے، پھینکا ہمَیں ہمیش
کب اُٹھ کے گھر کسی کی دُشنام سے گئے
تھا زعم، بچ نِکلنے کا دام سے خلش!
کم احتیاطِ اُلفت میں، کام سے گئے
شفیق خلش
...............
غزل
شفیق خلش
خراشِ دل پہ جمائی تھی جو کمال کے ساتھ
وہ دُھول زخم کی صُورت ہٹی خیال کے ساتھ
تمام عمر کٹے کیوں نہ پھرملال کے ساتھ
جو فیصلے ہوں محبّت کےاشتعال کے ساتھ
مری حیات کو،جھونکے ہوئے بہار کے اب
وہ چند لمحے جو بیتے تھے خوش جمال کے ساتھ
سمجھ سکے نہ تعلق وہ، لاکھ سمجھایا
گو گفتگو رہی اُن سے مری مثال کے ساتھ
تھی کیسی دُور نگاہی ، نظر نہ آیا اُنھیں
خود اپنا خاک میں مِلنا مِرے زوال کے ساتھ
کچھ اور ساتھ بھی رہتے تو کیا بدل جاتا
نبردآرا ہی رہتے کسی ملال کے ساتھ
حق اپنا مُفت میں مجھ پر جما رہے تھے خلش
بسر کچھ اور تھا مشکل اب اُس دیال کے ساتھ
شفیق خلش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُھپے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح
تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح
یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح
پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے ہے اِک اعزاز کی طرح
دِل اُس کے مُسکرانے پہ ہو مُطمئن نہ کیوں
ہے یہ بھی خوش شگونیِ آغاز کی طرح
عاشِق سے کیا بعید! اُڑان اُس کی جب رہے
اک بازِ با اِرداہ کے پرواز کی طرح
مولوُد پر ہُوا جو، بَھلا کب نہیں ہُوا
رونا وہی ہے زیست کی آغاز کی طرح
تشبیہ یا مِثال کی صُورت کوئی تو ہو !
کچھ بھی کہاں جہاں میں ہے خوش ںاز کی طرح
ہر شے اُداس ہجر میں اُس کے ہے اب خلش
بے چین دِل، طبیعتِ ناساز کی طرح
شفیق خلش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے
ہاں مگر اِس کا، کہ سب حال بتا دیتا ہے
دِن گُزارے ہیں سَرِ چاکِ زمانہ، لیکن
یہ بھی ہر شام وہی شکل بنا دیتا ہے
رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ !
نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے
ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پا کر
کیا نہ منظر کہ نِگاہوں میں سجا دیتا ہے
صُبْح پھر شمعۂ دِل سارے سہارے کھوکر
وصلِ موہُوم کی لَو حد سے گھٹا دیتا ہے
سانس رُک رُک کے چلے جب، تو ہو احساس کہ اب
دِل اجَل کو مِری، آنے کی نوا دیتا ہے
اب تو اُٹھنے کی غمِ ہجر سے سوچے پہ خلش
ضعفِ دِل اور بھی بستر سے لگا دیتا ہے
شفیق خلش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
شفیق خلش
آہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی
یاد ٹلتی نظر نہیں آتی
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے
دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی
گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا
یاس ہٹتی نظر نہیں آتی
یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج
سانس چلتی نظر نہیں آتی
کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو
سوچ بٹتی نظر نہیں آتی
ٹھہری ایسی ہے خوش خیال پہ ایک
عُمر کٹتی نظر نہیں آتی
ایک خواہش نے کیا جَلا ڈالا
خود گو جلتی نظر نہیں آتی
وہ اُفق پر ہے چاندنی کے ہمَیں
ساتھ چلتی نظر نہیں آتی
خاک تاثیر بھی محبّت کی !
جو بدلتی نظر نہیں آتی
ایسی سِل برف کی ہے دِل پہ لِئے
جو پگھلتی نظر نہیں آتی
حِدّتِ عشق کارگر بھی نہیں
دال گھلتی نظر نہیں آتی
یہ ملال اب ہمَیں کہ کیوں ہم پر
وہ اُچٹتی نظر نہیں آتی
ہو تغافل پہ کیا گلہ کہ خلش
آگ جلتی نظر نہیں آتی
مانیے اُلفت ایک طرفہ خلش !
اُن میں پلتی نظر نہیں آتی
شفیق خلش
..........................
غزل
........................
........................