شفیق خلش۔۔۔ غضب شاعری

شفیق خلش

غزل

غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے

مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے

کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے

کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی نوجوانی اور اُلفت نے دھر لِیا تھا مجھے

کسی بھی طَور قیا مت سے کم نہیں تھے، کہ اِک
نگاہِ ناز سے تسخیر کرلیا تھا مجھے

کم اِنہِماک نہیں تھے وہ مشوَروں پہ مِری
عَمل بھی کرتے تو، سنجیدہ گر لیا تھا مجھے

حَواس باختہ رکھتا تھا سامنا اُس کا !
جمالِ یار نے ، دِیوانہ کرلیا تھا مجھے

اُسے رَچایا تھا جیسا کہ دھڑکنوں میں، خلشؔ !
کچھ ایسا اُس نے بھی سانسوں میں بھر لیا تھا مجھے

شفیق خلشؔ
************


غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے

عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے

رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے

بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ سکے

تھی سعی سب کی ہی مقدُور بھر ڈبونے کی
یہ ہم ہی تھے، جو ذرا زیرِ آب ہو نہ سکے

تُمھارے حُسن سے نیّت یُوں ٹھہری حد پہ کہ اب
کسی بھی طَور، کسی پر خراب ہو نہ سکے

کشش عجیب ہے اُس حُسنِ بے مِثال میں اِک
ہو کوششیں بھی تو اب اجتناب ہو نہ سکے

سُنا ہے جب سے بنفسِ نفیس ہم نے اُنھیں
ذرا کسی سے کبھی لاجواب ہو نہ سکے

رہے اندھیروں میں اکثر یہ سوچتے ہیں کہ وہ
ہماری زیست کے، کیوں ماہتاب ہو نہ سکے

تَکُلّفات کی گُفت و شُنَید میں، ہم بھی
مُقابِل اُن کےکبھی بے حِجاب ہو نہ سکے

جُھلس رہے ہیں جُدائی کےتپتے صحرا میں
تمھارے بِن ذرا زیرِسحاب ہو نہ سکے

ہم اُن کے عشق میں ایسے خراب تھے، کہ خلشؔ
ذرا سا اور کسی سے خراب ہو نہ سکے

تھی اِنکساری طبیعت میں اپنی فطری خلشؔ
حسب نسب تھے! مگر ہم نواب ہو نہ سکے

شفیق خلشؔ

No comments: