دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے۔۔۔۔ شفیق خلشؔ

 شفیق خلشؔ

دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو ہے
گھر میں بھی آشکارِ اذیّت ر ہیں نہ کم
خوفِ وَبا ، کہ جاں کو اِک آزار ہی تو ہے
ہمّت دِلاتے رہتے ہیں سب کہہ کےیہ ہمیں!
مانع بس اب حصُول میں گفتار ہی توہے
ہر شے کی جا نشینی نہ کیوں یاد ہو خلشؔ
کُل کائنات، اب یہی گھربار ہی تو ہے
شفیق خلشؔ
Image may contain: Shafiq Khalish, suit and eyeglasses

Like
Comment
Share

No comments: