غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے


شفیق خلشؔ
غزل
غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے

مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے

کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے

کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی نوجوانی اور اُلفت نے دھر لِیا تھا مجھے

کسی بھی طَور قیا مت سے کم نہیں تھے، کہ اِک
نگاہِ ناز سے تسخیر کرلیا تھا مجھے

کم اِنہِماک نہیں تھے وہ مشوَروں پہ مِری
عَمل بھی کرتے تو، سنجیدہ گر لیا تھا مجھے

حَواس باختہ رکھتا تھا سامنا اُس کا !
جمالِ یار نے ، دِیوانہ کرلیا تھا مجھے

اُسے رَچایا تھا جیسا کہ دھڑکنوں میں، خلشؔ !
کچھ ایسا اُس نے بھی سانسوں میں بھر لیا تھا مجھے

شفیق خلشؔ

No comments: