Daagh Dehlvi




غزل

داغ دہلوی

گر میرے بُتِ  ہوش رُبا کو نہیں دیکھا
اُس دیکھنے والے نے خدا کو نہیں دیکھا

رہبر سے غرض کیا ہے جو منزل نظر آئے
کعبے سے کہے قبلہ نُما کو نہیں دیکھا

سمجھا  ہے شبِ ہجرِعدو کو وہ قیامت
ظالم  نے ابھی روزِ جزا کو نہیں دیکھا

جنت ہے مگر خانہٴ دشمن بھی الہیٰ
آتے ہوئے اُس گھر میں قضاء کو نہیں دیکھا

جس شکل سے ہنستے ہیں مِرے حال پہ احباب
روتے ہوئے یوں اہل عزا کو نہیں دیکھا

اِتنا  تو بتا دے مجھے اے ناصحِ مُشفِق
دیکھا  ہے، کہ اُس ماہِ لقا کو نہیں دیکھا

ایسی نظرِ شوخ میں تمکیں نہیں دیکھی
اس  طرح تغافل میں حیا کو نہیں دیکھا

اغیار کے نالے تو بہت تم نے سُنے ہیں
مظلوم کی تاثیرِ دُعا کو نہیں دیکھا

یہ اُس کی رہی خاک نشینوں سے کدُورت
اپنی بھی تو نقشِ کفِ پا کو نہیں دیکھا

افسوس کہ فرصت میں کبھی غور سے تم نے
افسانہٴ اربابِ وفا کو نہیں دیکھا

جب داغ کو ڈھونڈھا، کسی بت خانے میں پایا
گھرمیں کبھی اُس مردِ خدا کو نہیں دیکھا
 

داغ دہلوی

  *** 

غزل

داغ دہلوی


دیکھتا جا  اِدھر او قہر سے ڈرنے والے
نیچے نظریں کیے محشر میں گذرنے والے

راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے
ہم تو جاتے ہیں، ٹھہرجائیں ٹھہرنے والے

قلزمِ عشق سے اے خضر! ہمیں خوف نہیں
بیٹھ کر تہ میں اُبھرتے ہیں اُبھرنے والے

اِس گذرگاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک
جیسے گذرے گی، گذرایں گے گذرنے والے

منہ نہ پھیرا جگر و دل نے صفِ مژگاں سے
سچ تو یہ، وہ بھی بُرے ہوتے ہیں مرنے والے

ہو کے لبریز نہ چھلکے گا مِرا ساغرِ دل
میکدے سَو ہوں، اگر لاکھ ہوں بھرنے والے

ایک تو حُسن بَلا، اُس پہ بناوٹ آفت
گھربگاڑیں گے ہزاروں کے، سنورنے والے

کیا جہانِ گذَراں میں بھی لگے ہے گذری
مول لے جاتے ہیں غم،  یاں سے گذرنے والے

قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے، خوشی اِس کی ہے
آج اِترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے

تیرے گیسوئے پریشاں، نہ کریں سودائی
سر نہ ہوجائیں کسی کے، یہ بکھرنے والے

آہ کے ساتھ فلک سے یہ ندائیں آئیں
جل گئے سایۂ طوبیٰ میں ٹھہرنے والے

حشر میں لطف ہو، جب اُن سے ہوں دو دو باتیں
وہ کہیں کون ہو تم، ہم کہیں مرنے والے

کشتیِ نوح سے بھی کوُد پڑوں طوفاں میں
دیں سہارا جو مجھے پار اُترنے والے

خوش نوائی نے رکھا ہم کو اسیر اے صیّاد
ہم سے اچّھے رہے، صدقے میں اُترنے والے

کیا تِری کاکلِ شب گُوں کی بلائیں لیں گے
بوالہوس تیرگئ بخت سے ڈرنے والے

ہے وہی قہر، وہی جبر، وہی کبر و غرور
بُت، خدا ہیں مگر انصاف نہ کرنے والے

غسلِ میّت کی شہیدوں کو تِرے، کیا حاجت
بے نہائے بھی نکھرتے ہیں، نکھرنے والے

حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
اور ہوں گے تِری محفل سے اُبھرنے والے


 ****

غزلِ

داغ دہلوی

کس نے کہا کہ داغ وفا دار مرگيا
وہ ہاتھ مل کے کہتے ہيں کيا يار مرگيا

دامِ بلائے عشق کي وہ کشمکش رہی
اک اک پھڑک پھڑک کے گرفتار مرگيا

آنکھيں کُھلی ہوئی ہیں پسِ مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالبِ ديدار مرگيا

جس سے کيا ہے آپ نے اقرار جی گيا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مرگيا

کس بيکسی سے داغ نے افسوس جان دی
پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مرگيا

داغ دہلوی







غزل
داغ دہلوی
 

‫بُت کو بُت اور خُدا کو جو خُدا کہتے ہیں
 ہم بھی دیکھیں تو، اُسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں


ہم تصوّر میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں
سب میں اُڑ جاتی ہے ظالم اِسے کیا کہتے ہیں


جو بھلے ہیں وہ بُروں کو بھی بھلا کہتے ہیں
 نہ بُرا سُنتے ہیں اچھّے،  نہ بُرا کہتے ہیں

وقت مِلنے کا جو پُوچھا، تو کہا کہہ دیں گے
 غیر کا حال جو پُوچھا تو کہا، کہتے ہیں

نہیں مِلتا کسی مضموں سے ہمارا مضمون
 طرز اپنی ہے جُدا سب سے جُدا کہتے ہیں

 پہلے تو داغ کی تعریف ہُوا کرتی تھی
 اب خُدا جانے وہ کیوں اُس کو بُرا کہتے ہیں+


 
------
غزل
داغ دہلوی

بات میری کبھی سُنی ہی نہیں
 جانتے وہ بُری بھلی ہی نہیں

دل لگی اُن کی دل لگی ہی نہیں
 رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں

لُطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
 ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں

اُڑگئی یوں وفا زمانے سے
 کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

جان کیا دُوں کہ جانتا ہُوں میں
 تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں

 ہم تو دشمن کو دوست کرلیتے
 پر کریں کیا تِری خوشی ہی نہیں

 ہم تِری آرزو پہ جیتے ہیں
 یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں

دل لگی دل لگی نہیں ناصح
 تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں

 داغ کیوں تم کو بے وفا کہتا
 وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
 

 

 
 

 

1 comment:

yardlynagorski said...

dei titanium exhaust wrap - TiGTA
Buy dei powerbook g4 titanium titanium exhaust tittanium wrap. Titanium-Arduino. com.Titanium-arts. $11.95 · CIB at $19.90 · Tote Iron Frame. $39.95 titanium chainmail · Tote Iron Frame. $38.95 · sunscreen with titanium dioxide Tote Iron Frame. $43.95 · Tote used ford edge titanium Iron Frame. $39.95