بہادرشاہ ظفر -- جو دل میں ہو، سو کہو تم، نہ گفتگُو سے ہٹو





غزلِ
بہادرشاہ ظفر



جو دل میں ہو سوکہو تم، نہ گفتگُو سے ہٹو

رہو، پر آنکھ کے آگے،  نہ رُوبرُو سے ہٹو


میں آپ پھیرتا ہُوں، اپنے حلْق پر خنجر

چھُری اُٹھالو تم اپنی، مِرے گلُو سے ہٹو


شہیدِ ناز کے، ہرزخْم سے ہے خُوں جاری

تمھارا، تر نہ ہو دامن کہیں لہُو سے، ہٹو


جو پیش آئے وہ مستو، کرم ہے ساقی کا

نہ پھیروجام سے منہ، اور نہ تم سبُو سے ہٹو


بہادرشاہ ظفر
...................

غزلِ

بہادر شاہ ظفر

آگے پہنچاتےتھے واں تک خط وپیغام کو دوست
اب تو دُنیا میں رہا کوئی نہیں نام کو دوست

دوست یک رنگ کہاں جبکہ زمانہ ہو دورنگ
کہ وہی صبح کو دشمن ہے، جو ہے شام کو دوست

میرے نزدیک ہے واللہَ ! وہ دشمن اپنا
جانتا جو کہ ہے اُس کافرِ خود کام کو دوست

دوستی تجھ سے جو اے دشمنِ آرام ہوئی !
نہ میں راحت کو سمجھتا ہوں نہ آرام کو دوست

اے ظفر دوست ہیں آغازِ مُلاقات میں سب
دوست پر ہے وہی، جو شخص ہو انجام کو دوست

بہادر شاہ ظفر
..........................



 

No comments: