Ameer Minai---------- امیر مینائی





غزلِ

امیر مینائی

پُرسش کو مِری کون مِرے گھر نہیں آتا
تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا

تم لاکھ قسم کھاتے ہو مِلنے کی عدُو سے
ایمان سےکہہ دُوں، مجھے باور نہیں آتا

ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بَلا میں
کوچے میں تِرے فتنۂ محشر نہیں آتا

جو مجھ پر گزرتی ہے کبھی دیکھ لے ظالم
پھردیکھوں، کہ رونا تجھے کیونکر نہیں آتا

کہتے ہیں، یہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمہارے
سینے سے تڑپ کر کبھی باہر نہیں آتا

کب آنکھ اُٹھاتا ہوں کہ آتے نہیں تیور
کب بیٹھ کے اُٹھتا ہوں کہ چکر نہیں آتا

ہم جس کی ہوَس میں ہیں امیر آپے سے باہر
وہ پردہ نشین گھر سے بھی باہر نہیں آتا

امیر مینائی
......................
غزل
امیراحمد امیرؔمینائی

 
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
 
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری

 
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
 
میری تُربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری

 
میں نے آغوشِ تصور میں بھی کھینچا تو کہا
 
پِس گئی، پس گئی بے درد نزاکت میری

 
یار پہلو میں ہے، تنہائی ہے، کہدو نکلے
 
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری

 
آئینہ صُبحِ شبِ وصل جو دیکھا تو کہا
 
دیکھ ظالم، یہی تھی شام کو صورت میری

 
حُسن اورعشق ہم آغوش نظر آجاتی
 
تری تصویر میں کھنچ جاتی جو حیرت میری

کس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیرؔ
 
وہ مِرا گھر ہے، رہے جس میں محبت میری

امیرؔمینائی

No comments: